بدھ‬‮ ، 02 جولائی‬‮ 2025 

ٹیریان کیس، کیا عوام کو پتہ نہیں ہوناچاہیے کہ ان کے نمائندے کے فیملی ممبرز کون کون ہیں؟ جسٹس محسن اختر کیانی

datetime 29  مارچ‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(این این آئی)مبینہ بیٹی ٹیریان کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دور ان جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا عوام کو پتہ نہیں ہوناچاہیے کہ ان کے نمائندے کے فیملی ممبرز کون کون ہیں؟۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ

نے کیس کی سماعت کی، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر بھی لارجر بینچ میں شامل ہیں۔عمران خان کے وکلاء سلمان اکرم راجہ، ابو ذر سلمان خان نیازی جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔درخواست کے قابل سماعت ہونے پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو فنانشلی طور پر زیر کفالت ہیں ان سے متعلق بیان حلفی میں ذکر کرنے کا کہا گیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ کیا عوام کو پتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے نمائندے کے فیملی ممبرز کون کون ہیں؟الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ بیان حلفی آج بھی نامزدگی فارم کا حصہ ہوتا ہے۔عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے زیر کفالت ہونے سے متعلق پانامہ پیپرز کیس کا حوالہ دیا اور ٹیریان سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 فیصلوں کا حوالہ دیا، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس محسن اختر کیانی کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دونوں پٹیشنز میں اسی طرح کے الزامات لگائے گئے تھے، کیلیفورنیا عدالت کا فیصلہ یکطرفہ تھا، درخوست گزار شہری کون ہیں؟میں نے کبھی نہیں دیکھا، درخواست گزار کی جمع کرائی گئی فیصلوں کی نقول تصدیق شدہ نہ ہونے کا سوال بھی ہے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پانامہ کیس میں سوال آیا تھا مریم نواز زیر کفالت ہیں یا نہیں؟ زیر کفالت پر اس کیس میں مفصل بحث ہوئی، کم عمر بچوں کو زیر کفالت کی کیٹیگری میں ظاہر کرنا لازم تھا، ٹیریان کی عمر کاغذات نامزدگی کے وقت 26 سال اور اب 31 سال ہے۔

عمران خان کے وکیل نے ڈی این اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دے دیا۔انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ کسی سے زبردستی ڈی این اے نہیں لے سکتی ہے، ڈی این اے دینے کے حوالے سے متاثرہ فریق کی مرضی ضروری ہوتی ہے، اس کیس میں بھی ڈی این اے اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ خود چاہے، پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ آپ کسی کا زبردستی ڈی این اے لینے کا کہیں،

عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں اس لیے پٹیشن قابل سماعت نہیں۔عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے فیصل واوڈا کے کیس کا حوالہ بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی قانون کسی کو باہر سے بلا کر نہیں کہہ سکتا ڈی این اے سیمپل دو، اس ایک نکتے پر یہ کیس ’ڈیڈ اینڈ‘ پر پہنچ جاتا ہے، ڈی این اے سیمپل ریپ کیس کے متاثرہ سے بھی زبردستی نہیں لیا جا سکتا، سیمپل دینا ایک رضاکارانہ کام ہوتا ہے۔وکیل صفائی سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ڈی این اے کو شواہد کا حصہ بنانے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے میری استدعا پر دیا تھا، اس قانون کے مطابق بھی کسی سے جبراً سیمپل لینے پر پابندی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



حکمت کی واپسی


بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…