زہریلی گیس کے استعمال کے سو برس

28  ستمبر‬‮  2015

ایک صدی قبل جرمنوں نے پہلی مرتبہ زہریلی گیس کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا تھا۔ خندقوں میں بیٹھے فوجی اس بات سے بالکل بے خبرتھے کہ سبز اور پیلے رنگ کے بادل ان کی جانیں لے لیں گے۔ اپریل 1915ءمیں جرمن فوج کی طرف سے بیلجیم کے کھیتوں میں ٹنوں کے حساب سے کلورین گیس استعمال کی گئی تھی۔ تاریخ میں اتنی بڑی سطح پر زہریلی گیس کا بطور ہتھیار یہ اولین استعمال تھا۔ اس زہریلی گیس کے بادل تو جلد ہی ختم ہو گئے تھے لیکن اس کے اثرات آج بھی باقی ہیں۔آج سے ایک سو برس پہلے اپنی خندقوں میں بیٹھے فوجی اس بات سے بالکل ہی بے خبر تھے کہ اچانک ان کے سروں پر چھا جانے والے سبز اور پیلے رنگ کے بادل ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیں گے۔ تاریخ دان پیٹر ٹروغ کہتے ہیں، ”وہ بالکل ہی لاعلم تھے کہ ان کی طرف کیا چیز آ رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر تو اسی وقت دم گھٹنے سے مر گئے تھے۔ اس حملے کے بعد ہونے والا نفسیاتی اثر اس سے بھی زیادہ تباہ کن تھا۔“پہلی عالمی جنگ کے دوران بیلجیم کے شہر اِیپرس کے مضافات میں جرمن فوج نے کلورین گیس کے چھ سو سلنڈر استعمال کیے تھے۔ کہنے کو تو اس واقعے کو پوری ایک صدی ہو چکی ہے لیکن اِیپرس کے مقامی باشندوں کے لیے جنگ اب بھی ان سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔

03

ابھی تک وہاں زمین سے سالانہ ایسے سینکڑوں دھاتی شیل ملتے ہیں، جن میں جنگ کے دوران استعمال کے وقت زہریلے کیمیائی مادے بھرے گئے تھے۔بیلجیم کی فوج میں دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی بٹالین کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل گائے ڈی ڈَیکر کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی اب بھی یہاں روزانہ کا معمول ہے۔“پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمن فوج اور اس کے خلاف لڑنے والی اتحادی فورسز مسلسل اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل شہر اِیپرس پر قبضے کے لیے لڑتی رہی تھیں۔ 1914ء کے اواخر تک فریقین ایک دوسرے کو شکست دینے میں مسلسل ناکام ہو رہے تھے، جس کی وجہ سے شہر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے نت نئے طریقوں کے بارے میں سوچا گیا تھا۔ اس دور کے ایک سائنسدان فرٹس ہابر نے جرمن کمانڈروں کی اس عمل میں مدد کی کہ زہریلی گیس کو دشمن کے خلاف آزمایا جائے۔ حالانکہ 1907ئ کے ہیگ کنونشن میں اس گیس کا استعمال ممنوع قرار دیا جا چکا تھا۔ ا±سی دور میں فرانس نے بھی اپنے اگلے محاذوں پر دشمن کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا تھا لیکن یہ گیس 150 ٹن کلورین کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں تھی۔آج بدھ بائیس اپریل کے روز بلیجیم میں اس گیس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ بیلجیم میں یہ یادگاری تقریبات دو دن تک جاری رہیں گی جبکہ بیلجیم کے بادشاہ فِلیپ خصوصی طور پر اِیپرس کے کھیتوں میں ہونے والی تقریب میں شرکت کریں گے۔ اس تقریب کا انعقاد کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف انتہائی سرگرم عالمی تنظیم کی طرف سے کیا گیا ہے۔ آج اِیپرس میں پیش آنے والے واقعات کے ایک صدی بعد بھی یہ تنظیم کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود دنیا میں وقفے وقفے سے کہیں نہ کہیں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ابھی تک دیکھنے میں آتا ہے۔



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…