جانئے پاکستان کے ایک ایسے ریلوے اسٹیشن کی داستان جس نے بیس سال سے ریل گاڑی کی شکل نہیں دیکھی، کلک کر کے پڑھیں

30  جنوری‬‮  2015

جانئے پاکستان کے ایک ایسے ریلوے اسٹیشن کی داتان جس نے بیس سال سے ریل گاڑی کی شکل نہیں دیکھی، کلک کر کے پڑھیں

سکرنڈ ریلوے اسٹیشن سے ہوسکتا ہے کہ آخری ٹرین کو چلے 24 سال کا عرصہ ہونے والا ہو مگر اس کی

عمارت اب بھی مقامی افراد کے لیے اجتماع کا مقام ہے۔ وقت نے اسٹرکچر پر اثرات ضرور مرتب کیے ہیں مگر اس کی شان و شوکت اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے جو کہ برصغیر بھر میں تعمیر کیے جانے والی ریلوے عمارات کا خاصہ ہے اور یہ ریلوے لائنوں سے جڑی یادیں اور جذبات کو جگا دیتا ہے۔

ہم کراچی سے نوابشاہ جارہے تھے جب میں نے سکرنڈ کے قصبے میں کچھ دیر رکنے کا فیصلہ کیا۔ سکرنڈ کی جانب بڑھتے ہوئے گلیوں کی دیواروں نے میری نظروں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی جو کہ سب کی سب ٹیلی کام پیکجز کے اشتہارات سے بھری ہوئی تھیں۔

سکرنڈ اسٹیشن اس پرسکون قصبے کے مضافات میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اس اسٹیشن کی باہری دیواروں پر مقامی سیاسی لیڈرز کے پوسٹرز اور نعرے بھرے پڑے تھے اور جب میں اندر داخل ہوا تو میں نے احاطے کے وسط میں لوگوں کے ایک گروپ کو کھڑے ہوئے پایا۔ یہاں ہونے والا شور شرابہ کسی چھوٹے بازار کی یاد دلاتا ہے اور درحقیقت یہ موبائل فونز کی چھوٹی سی مارکیٹ ہی بن چکی ہے۔ ہماری قوم میں موبائل فون ڈیوائسز کا کنٹرول سے باہر اشتیاق ہے اور اس طرح کی مارکیٹیں ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے لیے ہمیں سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

عمارت کے اندر یہاں وہاں لوگوں کا ہجوم چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں احاطے میں گھوم رہا تھا اور باہر موجود ریلوے ٹریک غائب جبکہ وہاں بھینسیں سردیوں سے ٹھٹھرتی سورج کی شعاعوں میں آرام کررہی تھیں۔ اسٹیشن کے ایک کونے میں پارسل گودام ہے جسے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ وہاں اب وسط میں پول ٹیبل رکھی ہوئی ہے اور کچھ بچے ہمارے سامنے کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہاں کچھ تاریک کیلنڈرز بھی دیواروں پر لٹکے ہوئے تھے جبکہ ایک بلب چھت سے لٹک رہا تھا۔

ہم وہاں سے باہر نکلے۔ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ کیا ہمارا تعلق ریلوے ہیڈکوارٹرز سے ہے اور کیا ہم سکرنڈ میں ریلوے سروس کی بحالی کے لیے کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں۔

اپنے ماضی میں سکرنڈ اسٹیشن ایک مصروف جنکشن تھا جس کی تعمیر 1936 میں ہوئی تاکہ بھٹ شاہ اور نوابشاہ کی دیگر بستیوں کو باقی ملک کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہاں سے آخری ٹرین 1991 میں نکلی تھی جس کے بعد پاکستان ریلوے نے اس خطے سے آمدنی نہ ہونے کے باعث سروس کو ختم کردیا۔ تاہم مقامی افراد اب بھی پرامید ہیں کہ ایک دن یہ سروس پھر بحال ہوگی۔



کالم



ناکارہ اور مفلوج قوم


پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…