اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جاپان کے انوکی پہلوان کے نام سے شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جو ناواقف ہو۔ انوکی پہلوان اگلے ہفتے پاکستان آنیوالے ہیں اور ان کے دورے کے تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ دنیائے ریسلنگ میں اپنا منفرد اعزاز رکھنے والے انوکی پہلوان کی پاکستان میں شہرت کی وجہ 1976میں ہونیوالا ایک شاندار دنگل تھا۔ پاکستان کے نامور پہلوان اکرم عرف اکی نے
جاپان کے انوکی پہلوان کو چیلنج کیا تھا جس کو قبول کرتے ہوئے جاپانی انوکی پاکستان پہلوان اکی کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے پاکستان دنگل لڑنے پہنچ گئے تھے۔ 1976میں ہوئے اس عظیم الشان تاریخی دنگل کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انوکی پہلوان کا کہنا تھا کہ ایک پاکستانی پہلوان کی جانب سے چیلنج کرنا میرے لئے حیران کن تھا۔ انوکی بتاتے ہیں کہ میرے اور اکی پہلوان کے دنگل کو دیکھنے کیلئے تقریباً پچاس ہزار تماشائی آئے تھے۔ میں اور اکی نہ صرف مدمقابل تھے بلکہ ہم دونوں کا تعلق مختلف ممالک اور کلچر سے ہونے کی وجہ سے دنگل دلچسپ اور خطرناک ہو چکا تھا ، دنگل کا ماحول ایسا تھا کہ زندگی اور موت کی جنگ کا منظر لگ رہا تھا۔ آمنے سامنے آنے کے بعد ہم دونوں نے پہلے تو ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی اور پھر یہ دنگل ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خطرناک اور دلچسپ ہوتا گیا، 50ہزار تماشائی اور اس وقت دنیائے ریسلنگ کے دو عظیم پہلوان ، یہ ایک ایسا ماحول تھا جو شاید ہی کوئی دیکھنے والااپنی آخری سانس تک بھول سکتا ہو۔ انوکی بتاتے ہیں کہ میری کلائی پر آج بھی اکیّ پہلوان کے دانتوں کا نشان موجود ہے۔ اکی پہلوان نے میری کلائی منہ میں دبوچی تھی جس کو چھڑانے کے لئے میں نے ان کی آنکھوں میں انگلیاں چبھو دیں”۔انوکی کا کہنا ہے کہ اکیّ پہلوان کے ساتھ دنگل میں جیت کبھی بھی ان کے لئے باعث فخر نہیں رہی۔
بعد میں اکیّ پہلوان کے بھتیجے زبیر عرف جھارا سے کشی کے متعلق بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “یہ دنگل برابر رہا تھا، لیکن میں نے کشتی کے بعد جھارے کا ہاتھ پکڑ کر اوپر اٹھا دیا”۔انوکی آج بھی اکی پہلوان کو یاد کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ کئی سالوں سےاکی پہلوان کی قبر پر فاتحہ کے لئے جانا چاہتےتھےلیکن مصروفیت کی وجہ سے نہ جا سکے۔ انوکی سے متعلق ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے
کہ انوکی نے دورہ عراق کے دوران 1990میں کربلا کی زیارت کے دوران اسلام قبول کر لیاتھا۔ انوکی بتاتے ہیں کہ میں نے 1990میں مسجد میں باقاعدہ کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کیا تھا اور دو دنبے صدقے کے طور پردئیے تھے۔ جاپان کے انوکی پہلوان بتاتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد لوگوں کی جانب سے مجھے اسلامی نام رکھنے کی تجویز دی گئی اور میرا نام محمد علی تجویز کیا گیا
مگر یہ تجویز قبول نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس صدی کے عظیم مسلمان امریکی باکسر محمد علی بھی اس وقت موجود تھے اور ان سے میرا مقابلہ بھی ہو چکا تھا ، دو عالمی شہرت یافتہ شخصیات کا ایک جیسانام کنفیوژن کا باعث ہو سکتا تھا اس لئے ایک اور نام محمد حسین پر اتفاق کر لیا گیا اور میں محمد حسین انوکی ہو گیا۔ انوکی پہلوان اپنے نام کے حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے
بتاتے ہیں کہ ان کے نام محمد حسین میں سے ’’حسین‘‘اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین سے متاثر ہو کر ان کے نام سے لیا گیا تھا۔