حضرت عروہ بن زبیر، عبدالملک کے پاس گئے ہوئے تھے۔ ایک روز وہ اپنے لڑکے کو ہمراہ لے کر شاہی اصطبل دیکھنے گئے۔ یہ لڑکا ایک گھوڑے پر سوار ہوا جس نے اسے پٹخ دیا اور اس کے صدمے سے وہ جاں بحق ہو گیا۔ اس کے بعد ہی عروہ کے پاؤں میں ایک نہایت زہریلا پھوڑا ہوگیا۔
اطباء نے کہا۔ ’’پاؤں کاٹ دینا چاہیے ورنہ زہر سارے جسم میں پھیل کر ہلاکت کا باعث ہو گا۔‘‘ حضرت عروہؓ نے اپنا پاؤں کٹوانے کے لیے بڑھا دیا۔ طبیب نے کہا ’’تھوڑی سی شراب پی لیجئے تاکہ تکلیف کا احساس کم ہو۔‘‘ ’’جس مرض میں مجھ کو صحت کی امید بھی ہو، میں اس میں بھی حرام شے سے مدد نہیں لوں گا۔‘‘ حضرت عروہؓ نے جواب دیا۔ طبیب نے اوزاروں سے پاؤں کاٹ دیا۔ حضرت عروہؓ نہایت استقلال سے بیٹھے رہے اور زبان تسبیح و تہلیل میں مشغول رہی۔ جب خون بند کرنے کے لیے زخم کو داغا گیا تو درد کی شدت سے بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش میں آئے تو کٹا ہوا پاؤں منگا کر دیکھا اور الٹ پلٹ کر اس سے فرمایا۔ ’’اس ذات کی قسم جس نے تجھ سے میرا بوجھ اٹھوایا۔ اس کو خوب معلوم ہے کہ میں تیرے ساتھ کسی حرام راستے پر گامزن نہیں ہوا۔‘‘ بیٹے کے انتقال اور پاؤں کٹنے کی مصیبت پر بھی اللہ کا شکر کرتے اور کہتے۔ ’’اللہ تیرا شکر ہے کہ میرے چار ہاتھ پاؤں میں سے تو نے ایک ہی لیا اور تین باقی رکھے اگر تو نے کچھ لیا ہے تو بہت کچھ باقی رکھا ہے، اگر کچھ مصیبت میں مبتلا کیا ہے تو بہت دنوں عافیت میں بھی رکھ چکا ہے۔ (یاد ماضی صفحہ 27) اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اللہ والے ہر حال میں خوش اور راضی برضائے حق رہتے ہیں اور حرام چیز سے ہر حال میں بچتے ہیں۔