قرآن کریم میں صریح حکم ہے کہ بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہونا۔ اگر کسی کے گھر میں داخل ہونا ہو تو پہلے اجازت طلب کرو اور اجازت مل جائے تب داخل ہو اور اہل خانہ کو سلام کرو۔ اس معاملے میں اتنی احتیاط کا حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گھر میں بھی داخل ہوتے وقت دروازہ پر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جایا کرواور کسی نہ کسی ذریعہ سے مستورات کو اندازہ ہو جانے دو کہ تم گھر میں آ رہے ہو تاکہ مستورات اپنے کپڑے برابر کر لیں۔
اس کے بعد حکم دیا گیا کہ اپنے گھر میں داخل ہو کر سلام کیا کرو اگر ایسا کرو گے تو مکان میں افلاس نہیں آئے گا۔ عہد نبوی ﷺ میں اجازت لینے کا نہایت خوب صورت طریقہ رائج تھا۔ جب کوئی آدمی کسی کے گھر جاتا تو دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑا ہو کر سلام کرتا۔ صاحب خانہ اگر گھر میں موجود ہوتا تو جواب دیتا ہوا اپنے مکان سے باہر نکلتا اور مہمان کو اندر لے جاتا۔ اگر تین مرتبہ سلام کرنے کے بعد مہمان جواب نہ سنتا تو یہ سمجھ کر کہ صاحب خانہ گھر میں موجود نہیں ہے اور شاید صرف مستورات ہیں واپس ہوجاتا۔ ایک مرتبہ آقائے نامدار ﷺ حضرت سعد ؓ سے ملاقات کرنے کی غرض سے ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور اسلامی آداب کے تحت آپ ﷺ نے دروازے کے قریب کھڑے ہو کر السلام علیکم یا اہل البیت فرمایا۔ مکان میں حضرت سعدؓ سے ملاقات کرنے کی غرض سے ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور اسلامی آداب کے تحت آپ ﷺ نے دروازے کے قریب کھڑے ہو کر السلام علیکم یا اہل البیت فرمایا۔مکان میں حضرت سعد ؓ اور ان کے صاحبزادے موجود تھے۔ لیکن جب حضور ﷺ نے ان کا جواب نہیں سنا تو آپﷺ نے دوبارہ سلام کیا۔ اب حضرت سعد ؓ کے صاحبزادے سے برداشت نہ ہو سکا۔ انہوں نے اپنے والد سے کہا۔ جناب آپ حضور ﷺ کا سلام سن رہے ہیں اور باہر نکل کر آپ ﷺ کا استقبال کرتے ہیں نہ باآواز بلند جواب ہی دے رہے ہیں ، یہ عجیب بات ہے۔
سعد ؓ نے بیٹے سے کہا تم خاموش رہو۔ تیسری مرتبہ سلام کا جواب نہ پا کر حضور ﷺ اصول و آداب کے تحت واپس لوٹنے لگے تو حضرت سعد ؓ دوڑتے ہوئے باہر آئے اور آپ ﷺ سے گھر میں تشریف لے جانے کے لئے درخواست کی۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ ” کیا تم نے میرے سلام کی آواز نہیں سنی تھی؟” سعد ؓ نے کہا “آقا! میں تینوں مرتبہ آپ ﷺ کے سلام کی آواز سنی اور تینوں مرتبہ پست آواز سے جواب بھی دیا تھا۔ باآواز بلند نہ جواب دیا نہ باہر آیا تاکہ آپ ﷺ بار بار میرے اور میرے گھر والوں پر سلامتی کی دعائیں اور یہ سعادت تین مرتبہ مجھے نصیب ہو جائے۔ آقا ﷺ نے اپنے غلام کا یہ پاک اور مخلصانہ جذبہ دیکھا تو اس کی قدر فرمائی اور اپنے مبارک قدموں سے سعد ؓ کے غربت کدے کو اوج ثریا بخش دیا۔