حضرت عوف بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا، آپؐ نے فریقین کا موقف سننے کے بعد فیصلہ فرمایا تو مقدمہ ہارنے والے نے جاتے ہوئے کہا حسبی اللہ ونعم الوکیل ، آپؐ نے فرمایا ، اس آدمی کو واپس بلاؤ ، وہ واپس آیا تو آپؐ نے پوچھا تم نے جاتے ہوئے کیا کہا تھا ، اس نے کہا حسبی اللہ ونعم الوکیل ، یعنی میرا اللہ مالک ہے، آپؐ نے کہا ایسے نہیں
(یعنی تمہیں اپنا حق حاصل کرنے اور مقدمہ جیتنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے تھی)، اس لئے کہ اللہ تعالی نالائقی اور بے ہمتی کو ناپسند کرتے ہیں، تمہیں ہوشیاری سے کام لینا چاہئے ، پھر بھی بات ہاتھ سے نکل جائے تو کہو حسبی اللہ ونعم الوکیل۔[مسند احمد حدیث نمبر : 23983، ابو داؤد حدیث نمبر :3627 ]حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی بے ہمتی کو ناپسند کرتے ہیں، لہذا اپنی طرف سے پورا زور لگاؤ ، پھر بھی معاملہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے تو کہو : توکلتُ علی اللہ (میں نے اللہ پر ڈالا)یا کہو حسبی اللہ ونعم الوکیل۔ [المعجم الکبیر للطبرانی : حدیث نمبر : 7475 ]حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک تنومند نوجوان مسجد میں آیا اور مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میں اللہ کے راستے میں جانا چاہتا ہوں ، کون میری مدد کرے گا، حضرت عمرؓنے اس نوجوان کو اپنے پاس بلایا اور حاضرینِ مجلس سے کہا کہ اپنی زرعی زمین میں اسے کون مزدور رکھنے کے لئے تیار ہے، ایک انصاری آمادہ ہوگئے ، حضرت عمرؓ نے اجرت بھی طے کرادی، چند ماہ گذرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے انصاری سے کہا کہ اس مزدور کو بھی بلا لاؤ اور اس کی جتنی اجرت اب تک بنی ہے وہ بھی لے آؤ، چنانچہ وہ انصاری اس مزدور نوجوان اور دراہم کی ایک تھیلی کے ساتھ دوبارہ حاضر ہوئے، حضرت عمر نے وہ تھیلی اسے تھماتے ہوئے فرمایا یہ لے جاؤ ، اب اگر تمہارا دل چاہے تو (اس رقم کے ساتھ) اللہ کے راستے میں چلے جائے مرضی ہو تو گھر میں بیٹھو۔ [شعب الایمان بیہقی: ۲/۴۳۰]
اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ لائیک اور شیئر کریں