شکار میں ایک بادشاہ ہرن کے تعاقب میں بہت دور نکل گیا۔ ہرن تیر کھا کر گھنے جنگل میں غائب ہو گیا۔ بادشاہ اپنی ضد کی وجہ سے چاہتا تھا کہ تیر خوردہ زخمی ہرن کا شکار ضرور کرے۔ وہاں پر ایک خدا رسیدہ درویش درخت کے سائے میں مصروف عبادت تھا۔ بادشاہ گھوڑے سے اترا اور درویش کی خدمت میں پہنچ کر پوچھا۔ کیوں بابا صاحب! ادھر کوئی ہرن تو نہیں آیا۔ درویش نے سوچا اگر ہرن کا پتہ دوں تو ہرن کی جان جاتی ہے
اور اگر یہ کہوں کہ میں نے ہرن کو نہیں دیکھا تو خواہ مخواہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ درویش نے سوچا کہ کس طرح ہرن کی جان بچائی جائے اور بادشاہ کو ہرن کے شکار سے باز رکھا جائے۔تھوڑی دیر سوچ کر درویش نے کہا کہ بادشاہ سلامت دیکھنا آنکھ کا کام ہے لیکن وہ بول نہیں سکتی۔ بولنا زبان کا کام ہے مگر وہ دیکھ نہیں سکتی۔ آنکھوں نے ہرن کو دیکھا ہے لیکن وہ کیسے بتا سکتی ہیں بتانا زبان کا کام ہے مگر زبان نے دیکھا نہیں لہٰذا وہ کیسے بتا سکتی ہے۔ بادشاہ درویش کا جواب سن کر لاجواب ہو گیا اور آئندہ شکار کھیلنے سے توبہ کر لی۔ درویش کے اس نکتہ نے ہرن کی جان بچا لی۔علامہ اقبالؒ نے غلط کو ’’ط‘‘ کی بجائے ’’ت‘‘ سے کیوں لکھا؟علامہ موصوف کو جب ’’سر‘‘ (ناٹ ہڈ) کا خطاب گورنمنٹ کی طرف سے پیش کیا گیا توانہوںنے اس خطاب کو قبول کرنے میں یہ شرط رکھ دی کہ ان کے استاد مولانا میر حسن کو بھی شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز کیا جائے کہ ان کی یعنی مولانا کی سب سے بڑی تصنیف خود میں ہوں چنانچہ اس شرط کو پورا کیا گیا۔ بچپن میں استاد نے املا لکھائی تو علامہ اقبال نے غلط کو ’’ط‘‘ کی بجائے ’’ت‘‘ سے لکھا۔ استاد نے کہا ’’غلط‘‘ کا لفظ ط سے لکھا جاتا ہے۔ ’’علامہ اقبال نے کہاکہ غلط کو غلط ہی لکھنا چاہئے۔ حضرت اقبال مغفور سے کسی نے کہا ایک شخص نے آپ کے کلام میں کئی غلطیاں نکالی ہیں۔ اقبالؒ نے کہا ’’تو میں نے کب یہ دعویٰ کیا ہے کہ میرا کلام کلام مجید ہے جس میں کوئی غلطی نہیں‘‘۔