گلی محلوں سے گند اور کچرے سے بوتلیں ، لوہا ، گتا اور کچرا اٹھانے والا ’’چنگڑ‘‘ساحر یورپ کیسے پہنچا اور کتنا تعلیم یافتہ اورامیر ہے؟ عزم و ہمت اور محنت کی ایسی داستان کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھے

28  مئی‬‮  2018

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چنگڑ، چوڑا، مثلی، یہ الفاظ عموماََ آپ نے اپنے اردگرد کچھ لوگوں کو کہتے سنے ہونگے، یہ الفاظ عموماََ ایک خاص کمیونٹی کیلئے ہمارے ہاں تحقیر کے نشان بن چکے ہیں، یہ کمیونٹی مہذب معاشرے سے یکسر کٹی ہوئی ، نالوں، سڑکوں کے کناروں اورویران جگہوں پر جھونپڑیاں بنا کر رہتی ہے۔ پاکستان کے شہروں میں عموماََ آپ نے ان خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں

گنجان جگہوں پر بھی دیکھی ہونگی۔ یہ ان پڑھ، جدید تعلیم سے بے بہرہ اور تہذیب سے نابلد لوگ آج بھی حکومت کی بے توجہی کا شکار ہیں اور ان کو ملک کی دیگر آبادی کے ساتھ جوڑنے کیلئے کسی بھی حکومت یا شخصیت نے آج تک کچھ نہیں کیا۔ ان کے مرد مختلف کم تر پیشوں سے وابستہ ہوتے ہیں یا پھر جرائم کے ذریعے پیسے کماتے ہیں۔ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ خاندان کی کفالت کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور لوگوں کے گھروں میں کام کاج یا بھیک مانگ کر گزارہ کرتی ہیں۔ بچوں کو چھوٹے ہوتے ہی کچرے کے ڈھیروں پر بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ پرانی پلاسٹک کی بوتلیں ، کاغذ، گتے اور دیگر اسی طرح کی اشیا جو کہ ری سائیکل ہو سکتی ہیں جمع کر کے مختلف کباڑ کی دکانوں پر فروخت کرکے ماں باپ کیلئے پیسے کماتے ہیں۔ ان افراد میں منشیات کا استعمال بھی عام ہے اور ان کے بچے بھی بچپن سے ہی مختلف برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ پاکستان کی چنگڑ کمیونٹی کا ایک ایسا شخص بھی ہے جو نہ صرف انتہائی جدید تہذیب سے بہرہ ور بلکہ امریکہ سے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی امیر بھی ہے۔ اس شخص کا نام ساحر ہے اور انہوں نے اپنی کہانی ایک ویڈیو میں بیان کی ہے جو کہ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔ ساحر بتاتے ہیں کہ میرے بچپن کا آغاز کوڑا چننے سے ہوا تھا۔ میں پاکستان میں جو

لوگ جھونپڑی میں رہتے ہیں انہی میں سے ایک ہوں، میرے ابو گدھا گاڑی چلاتے ہیں اور امی لوگوں کے گھروں میں بطور ماسی کام کرتی ہیں۔ میرے اندر بچپن سے ایک ’’بری عادت ‘‘تھی کہ مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔ جب میں کوڑا چنا کرتا تھا تو اس وقت میں کوڑا چننے کے ساتھ اس میں موجود اخبار پڑھنے لگ جایا کرتا تھا جس کی وجہ سے مجھے عموماََ ڈانٹ بھی پڑا کرتی تھی۔ میرے کزن

سمجھا کرتے تھے کہ میں پاگل ہو چکا ہوں اور میرا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا ہے، میں کچھ نہیں کر سکتا اور اخبار پڑھنے میں وقت ضائع کر رہا ہوں۔ میری پڑھنے کی ضد نے بالآخر مجھےایک سکول تک پہنچا دیا جو کہ میری زندگی کا ایک بہت ہی مختلف موڑ تھا کیونکہ میں اپنی کمیونٹی جسے لوگ مثلی، چنگڑ، چوڑا کہتے ہیں اس کا پہلا پڑھا لکھا بندہ ہوں جو انگریزی میں بھی بات کرسکتا ہے ۔

میں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ اس طرح جو میری روٹین ہوتی تھی کہ مجھے اپنے ماں باپ کو کما کر پیسے دینے ہوتے تھے ، میں صبح صبح اٹھتا تھا اور اپنا کوڑے کا تھیلا پکڑتا تھا اور مختلف مارکیٹوں میں، گھروں کے سامنے اور جہاں بھی مجھے کوڑا ملتا تھا، پلاسٹک، لوہا، ٹن جو بھی پلاسٹک کی بوتلیں ملتی تھیں چنا کرتا تھا اور اس کے بعد اپنے گھر آتا تھا، کوڑے کا تھیلا رکھ کر ہاتھ منہ دھو کر

سکول بھاگ جایا کرتا تھااور سارا دن سکول میں گزارا کرتا تھا۔ سکول میں بھی مجھے بہت سے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، میرے ٹیچر سمجھا کرتے تھے کہ میں مثلیوں کا لڑکا ہوں اور میرا دماغ کام نہیں کر سکتا، وہ مجھے نالائق اور کچرا سمجھا کرتے تھے، اور یہ میرے لئے ایک چیلنج تھا کہ میں اپنا آپ ان پر ثابت کرسکوں اور یہی وجہ ہے کہ میں زیادہ دل لگی سے پڑھتا تھا، میری ایک عادت تھی

کہ میں ریڈنگ زیادہ کرتا تھا جس کی وجہ سے مجھے سکول کے دیگر بچوں کی نسبت ایک ایج حاصل ہو گیا تھا۔ پھر پانچویں اور چھٹی جماعت میں میں نے انگریزی پڑھنا شروع کی ، انگریزی میرے لئے ایک بہت ہی مختلف تجربہ تھا، انگریزی میں جیسے بڑے حروف ہوتے ہیں جنہیں کیپیٹل لیٹر کہا جاتا ہے اور چھوٹے حروف کو سمال لیٹر جن کا مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا، میں سمجھا کرتا تھا

کہ جب کیپٹل لیٹر موجود ہیں تو پھر سمال لیٹر کے استعمال کی کیا ضرورت ہے اور اس چیز کو سمجھنے میں میںنے اچھا خاصا وقت لیا۔ جب میرا انگریزی سے پہلا تعارف ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ پاکستان میں جو لوگ انگریزی میں بات کرسکتے ہیں ان کے ساتھ لوگ مختلف انداز میں برتائو کرتے ہیں اور مجھے بچپن میں ہی اس کا اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر میں انگلش سیکھ سکتا ہوں تو سوسائٹی

میرے ساتھ مختلف انداز میں برتائو کرنا شروع کر دے گی۔ اسی طرح میں نے انگریزی سیکھنا شروع کر دی، میں نے پہلے پہل اپنی دو نوٹ بک اسی شوق میںانگریزی کے joiningرسم الخط سے الٹی سیدھی لکھ کر بھر دیں اور پھر جب مجھے ٹیچر سے تھپڑ پڑے تو پتہ چلا کہ انگریزی ایسے نہیں لکھی جاتی ، میں نے joiningرسم الخط میں نوٹ بکس الٹا سیدھا لکھ کر بھر دی تھیں۔ اس کے بعد میں

نے بڑی شدت سے انگریزی سیکھی ، میں نے ٹینسز سیکھے، ایکٹو وائز، پیسو وائز سیکھے، ڈائریکٹ اینڈ ان ڈائریکٹ سیکھے، اینالیسز کرنا سیکھا، میں نے ایک گرائمر پڑھی جو انڈیا سے ملا کرتی تھی، ہائی سکول گرائمراینڈ کمپوزیشن جسے رے این مارٹن نے لکھا تھا اور اس طرح میرا انگریزی کا سفر شروع ہوا۔ آٹھویں کلاس کے میں نے بورڈ کے امتحانات دئیے جس میں میں نے

اپنی جماعت میں ٹاپ کیا۔ جس پر پہلی بار مجھے روٹری کلب نے 300روپے کی سکالر شپ دی جس سے میں نے اپنی نویں دسویں جماعت کی کتابیں اور یونیفارم خریدا۔ اس طرح میرا یہ سفر جاری رہا۔ اب جب مجھے انگریزی پڑھنا اور لکھنا آگیا تو اس کا مجھے سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ میرے ساتھ جو کلاس فیلوز تھے ان کو میں ٹیوشن پڑھانا شروع ہو گیا اور ان کو پڑھانے کیلئے ان کے گھروں میں جانے لگ پڑا۔

صبح کوڑا چننے کے بجائے میں نے لوگوں کے گھروں میں صبح اخبار پھینکنا شروع کر دئیے۔ جہاں میری امی کام کرتی تھیں وہاں میں نے گاڑیاں صاف کرنا شرو ع کر دیں۔ تعلیم کی وجہ سے میرے سوچنے کا انداز بھی بدلتا چلا گیا، میرے اندر جو پڑھنے کی لگن تھی وہ مجھے مزید پڑھنے کی جانب اکسانے لگی اور میں نے سکول کی کتابوں کے علاوہ رشین لٹریچر پڑھنا شروع کر دیا اور جو بھی مجھے

ملتا تھا میں نے پڑھنا شرو ع کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ساتویں کلاس میں تھا تو میری امی سر پر بہت سے کتابوں کا بنڈل اٹھا کر آئیں جو کہ بیکن ہائوس اور دیگر بڑے سکول سسٹم کی کتابیں تھیں ، وہ میری زندگی کایادگار لمحہ ہے، میں نے دیکھا کہ میری امی نے کتابوں کی گٹھڑی نیچے رکھی اور میں نے اس میں دیکھا تو مجھے ایک ناول ملا جو کہ میرے لئے دنیا کی مقدس ترین کتاب ہے۔

اس ناول کا نام ’’گریٹ ایکپکٹیشن ‘‘ہے جو مشہور برطانوی مصنف چارلس زکر نے لکھا ہے ۔ اس ناول میں ایک ایسا کردار تھا جو مجھ سے ملتا جلتا تھا جس کو پوری دنیا میں اپنے ساتھ ریلیٹ کر سکتا تھا، اس ناول کے اس کردار کو ایک چانس ملا اور اس کی لائف بدل گئی۔ اس کردار کی وجہ سے مجھے آج بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ ناول میں نے نہ پڑھا

ہوتا تو میری لائف بالکل مختلف ہوتی، میں آگے بڑھنے کا خواب نہ دیکھتا۔ اسی دورا ن میں نے میٹرک کر لیا اور اکائونٹنسی کا ڈپلومہ کیا ، میں نے مختلف جابز کرنا شرو ع کر دیں اور سوشل ایکٹی ویٹی میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ میرے پڑھنے سے میرا پروفائل یکسر بدل چکا تھا۔ میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ لوگ زیادہ شدت سے آکر مجھ سے ملنا شروع ہو گئے ، میرے اندر جو احساس کمتری تھا

کہ میں چوڑا ہوں، چنگڑ ہوں ادب اور لٹریچر نے اس کو بدل کر رکھ دیا تھا، اسی طرح میں نے مختلف پروگراموں میں اپلائی کرنا شروع کر دیا۔ امریکہ کے لاہور کے قونصل خاہ میں ایک خاتون ہیں جن کا میں بہت شکر گزار ہوں ان کا نام کیتھرین تھا وہ مجھے ایک سوشل گیدرنگ میں ملیں ، وہ میری کہانی سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں ، انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پاکستان میں اس کمیونٹی کے لوگ بھی پڑھ لکھ سکتے ہیں ۔

انہوں نے مجھے ایک سکالر شپ پروگرام کیلئے اپلائی کرنے کا کہا، یہ میرے لئے بہت زیادہ بڑا تھا کیونکہ میں بہت زیادہ کنفیوز تھا کہ میں اس کیلئے سلیکٹ ہو بھی سکتا ہوں یا نہیں، پروگرام کیلئے مقررہ آخری دن میں نے اس کیلئے اپلائی کیا ، اس کیلئے ایک ریکمینڈیشن لیٹر چاہئے تھا ، میں نے کیتھرین سے درخواست کی کہ وہ مجھے ریکمینڈیشن لیٹر لکھ دیں کیونکہ میرا کوئی ایسا جاننے والا نہیں تھا

جو میرا لیٹر آف ریکمینڈیشن لکھ کے دیتا۔ انہوں نے میری درخواست قبول کرتے ہوئے مجھے ریکمینڈیشن لیٹر دیا۔ میں پروگرام کیلئے سلیکٹ ہو گیا ۔ 2012میں میں امریکہ آگیا ، یہ امرجنگ لیڈر شپ پروگرام کے تحت سکالر شپ تھی، اس میں پورے پاکستان سے چند لوگ سلیکٹ کئے گئے تھے جن میں میں بھی شامل تھا۔ یہاں اس وقت صدر اوبامہ کے الیکشن ہو رہے تھے۔ ہم یہاں مختلف جگہوں پر گئے ،

یہ میرے لئے ایک مختلف تجربہ تھا جس میں مجھے احساس ہوا کہ جمہوریت کے کیا فوائد ہیں ، یہاں لوگ کتنے ذمہ دار ہیں کیسے ہر آدمی ووٹ کرنے جا رہا ہے۔ یہ میرا امریکہ کا پہلا دورہ تھا جس میں میرے لئے سیکھنے کیلئے بہت کچھ تھا، اور اس دورے کی وجہ سے مجھ میں ہمت آئی کہ میں کچھ اور کام کروں جیسا کہ میں ابھی جھونپڑیوں میں رہنے والے اپنی کمیونٹی کے لوگوں کیلئے

موبائل ٹوائلٹ بنانا چاہتا ہوں، میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ میری کمیونٹی کے لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ مختلف موذی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جاتے رہے ہیں۔ موبائل ٹوائلٹ کی سہولت سے ایک تو وہ صحت عامہ کے رہنما اصولوں پر کاربند رہ سکیں گے اور بیماریوں سےمحفوظ رہیں گے دوسرا اس موبائل ٹوائلٹ کے ذریعے بائیو گیس اور فرٹیلائزر بنانے سے ان کی معاشی حالت بھی بہتر ہو سکے گی۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…