پاکستان کے معروف کالم نگار یاسر پیرزادہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ دنیا کے مشہور سائنسدان سٹیفن ہاپکنگ جس کی زندگی کوخود کسی معجزے سے کم نہیں ، جس کو دیکھ کر خدا کی کبریائی اور تصرف پر ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے ۔ یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں کہ دنیا کا معروف سائنسدان سٹیفن ہاپکنگ ’’موٹر نیورون ‘‘ نامی ایک بیماری کا شکار ہے جس کی تشخیص اُس وقت ہوئی تھی
جب ہاکنگ کی عمر اکیس برس تھی، ڈاکٹروں نے اسے بتایا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ دو برس مزید زندہ رہ سکتا ہے، اس حساب سے 23برس کی عمر میں ہاپکنگ کو مر جانا چاہئے تھا، مگر اب 2017آچکا ہے، اسٹیفن ہاپکنگ کی عمر پچھتر برس ہے، وہ اب بھی زندہ ہے اور آئے دن لیکچر دیتا ہے اور نت نئی تھیوریاں پیش کرتا ہے۔ مذہب اور معجزوں پر اُس کا یقین نہیں، بقول اسٹیفن ہاپکنگ ’’مذہب اور سائنس میں ایک بنیادی فرق ہے، مذہب کی بنیاد اختیار (یا ایمان ) پر ہے جبکہ سائنس مشاہدے اور دلیل پر استوار ہے، جیت سائنس کی ہوگی کیونکہ سائنس کا طریقہ کار نتیجہ خیز ہے۔‘‘ یاسر پیرزادہ کے کالم کے اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان علم سے نہیں یقین سے حاصل ہوتا ہے۔ ابو جہل جو رشتے میں حضور اکرمﷺ کا چچا تھا راتوں کو اٹھ اٹھ کر چپکے سے جب نبی آخر الزمان قرآن کی تلاوت فرما رہے ہوتے تو ان کی تلاوت سننے پہنچ جاتا اور خاموشی سے چھپ کر تلاوت سنتا رہتا، ابوجہل کا شمار عرب کے ان شعرا میں ہوتا تھا جس کا کلام خانہ کعبہ میں رکھا گیا تھا ، ابوجہل کہا کرتا تھا کہ میں مانتا ہوںکہ محمد سچے ہیں اور کلام تعالیٰ برحق مگر میں اسے تسلیم نہیں کرتا، اس کی اسی ہٹ دھرمی کے باعث اسے ابوجہل کے لقب سے پکارا گیا، آج سٹیفن ہاپکنگ بھی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں آج سے 1400سال قبل ابو جہل کھڑا تھا،
وہ اس وقت باپ دادا کے مذہب کو غلط سمجھتے ہوئے بھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اور سٹیفن ہاپکنگ اپنی زندگی کو معجزہ سمجھتے ہوئے بھی مذہب اور خدا پر سائنس کو ترجیح دیتا ہے۔ معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک عموماََ اپنے خطبات میں ایک بات کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر سائنس قرآن کریم کے 80فیصد حصے کو تحقیق کے بعد درست قرار دے رہی ہے اور باقی 20فیصد
جس کے متعلق سائنس کچھ بھی کہنے سے عاری ہے ، یعنی سائنس نہ تو اسے غلط کہہ سکتی ہے اور نہ ہی صحیح کیونکہ سائنس خود اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ ابھی اس پوزیشن میں ہی نہیں کہ اس 20فیصد حصے کو صحیح یا غلط قرار دے سکے تو میری لاجک مجھے بتاتی اور سکھاتی ہے کہ اگر اس کتاب کا 80فیصد حصہ بغیر کسی شک و شبہے کے صحیح تسلیم کر لیا گیا ہے
تو باقی 20فیصد بھی یقیناََ درست ہو گا ۔ اگر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اس نقطے پر غور کیا جائے تو آپ باآسانی اس بات کا اندازہ لگا سکیں گے کہ 80فیصد کو بنیاد بنا کر باقی 20فیصد پر ایمان لانے والے کی لاجک درست قرار دی جا سکتی ہے یا سائنس کے گارڈ فادر سمجھے جانے والے سٹیفن ہاپکنگ جس کی زندگی خود ایک معجزہ ہے مگر وہ کسی معجزہ کو سرے سے تسلیم کرنے سے
ہی انکاری ہے اور کائنات کی گتھیاں سلجھانے والا اپنی زندگی کی سائنسی توجیہہ پیش کرنے سے قاصر نظر آتا ہے اور سائنس کی جیت پر بازی لگا کر بیٹھا ہے۔