پندراں اگست 2011 کی بات ہے ،انٹونیو ڈیاز اپنی بیوی کے ساتھ لان کی صفائی میں مصروف تھا جب اس کی نظر ایک نیلی وین پر پڑی۔ وہ وین تیزی سے آئی اور سڑک کے کنارے رک گئی۔ اندر سے ایک پر اسرار آدمی نکلا اور ایک چھے سال کی بچی کو زبردستی اٹھا کر وین میں ڈال لیا۔ انٹونیو نے دیکھتے ہی بھانپ لیا کہ یہ کوئی گھٹیا آدمی تھا اور بچی کو اغوا کر کے لجا رہا تھا۔
انٹونیو نے اسی وقت اپنی بیوی سے کہا کہ اندر جا کر نائن ون ون کو کال کرے اور پولیس کو بلا لے۔ انٹونیو جانتا تھا کہ اگر وہ تھوڑا سا وقت بھی اور ضائع کرے گا تو بچی کا کچا اور معصوم دماغ بری طرح برباد ہو سکتا تھا۔ اس نے اپنی گاڑی نکالی اور اس وین کے پیچھےکے پیچھے گیا۔ تھوڑا دور پہنچ کر اس نے اغوا کرنے والے آدمی کی وین کو اوور ٹیک کیا اور اس کا راستہ بلاک کر دیا۔اس نے وین سے اس آدمی کو باہر نکالا اور پیٹا۔ وہ ایک چھے سال کی میکسکن بچی تھی اور جب پولیس آئی تو اس آدمی کو دیکھتے ہی پہچان گئی۔ یہ فلپ تھا، فلپ انتیس سال کا ایک ذہنی مریض تھا اور پہلے بھی بہت سے بچے اور بچیوں کو اس طرح اغوا کر کے ان کا غلط استعمال کر چکا تھا۔ وہ پولیس کی ’وانٹڈ‘ لسٹ پر تھا اور اگر انٹونیو وقت پر اپنی بیوی سے پولیس نہ بلواتا یا خود اس کی گاڑی بلاک نہ کرتا تو وہ ایک اور بچی کی زندگی بیڑا غرق کر دیتا۔ دراصل انٹونیو نے وہ کارنامہ کیا جو لوگ عام طور پر کبھی نہیں کرتے۔ معاشرے کی ریت رہی ہے کہ کوئی جرم ہوتا دیکھتے ہیں تو جائے وقوعہ سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں تاکہ مفت میں کسی اور کی مصیبت اپنے سر نہ لینی پڑے لیکن انٹونیو ایک حقیقی زندگی کا ہیرو تھا۔ فلپ گارسیہ جیسے گندی سوچ والے لوگ معاشرے کا ناسور ہوتے ہیں اور بچوں کی پوری زندگی برباد کر دیتے ہیں کیونکہ جسمانی گھاؤ تو بھر جاتے ہیں
مگر ان کے ذہنی گھاؤ بھرنے میں ساری عمر لگ جاتی ہے۔ انٹونیو سے جب بعد میں انٹر ویو لیا گیا تو اس نے بڑی عاجزی سے بولا کہ میں نے وہی کیا جو کوئی بھی عام آدمی ایسے حالات میں کرتا۔ پر تلخ حقیقت یہ ہے کہ انٹونیو نے جو کیا وہ ہر ایک کو کرنا چاہیے تھا کیونکہ ایسا سو میں سے ایک آدمی دلیر ہوتا ہے۔