جنگ ستمبر 1965کا آغاز رن آف کچھ سے ہو چکا تھا ۔بی ی سی کی اردو ویب سائٹ پر 4ستمبر 2015کو جنگ ستمبر 1965کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جو کہ دلچسپ حقائق کو آشکار کرتی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکمت عملی کے اعتبار سے کچھ کے علاقے میں پاکستان بہت فائدے میں تھا کیونکہ اس علاقے سے محض 26 میل کے فاصلے پر ہی ان کا
ریلوے سٹیشن بدين تھابہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سنہ 1965 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کی بنیاد رن آف کچھ کے ویران علاقے میں ہونے والی ایک چھوٹی سی جھڑپ سے رکھی گئی تھی۔یہ پورا علاقہ ایک طرح کا صحرا تھا جہاں کچھ چرواہے کبھی کبھار اپنی بھیڑ بکریاں چرانے جایا کرتے تھے یا بھولے بھٹکے کبھی پولیس والوں کا دستہ گشت کر لیا کرتا تھا۔حکمت عملی کے اعتبار سے یہاں پاکستان بہت فائدے میں تھا کیونکہ اس علاقے سے محض 26 میل کے فاصلے ہی پر ان کا ریلوے سٹیشن بدين تھا جہاں سے بذریعہ ریل کراچی کا فاصلہ صرف ایک 113 میل تھا۔ پاکستان کی آٹھویں ڈویژن کا یہیں پر ہیڈ کوارٹر تھا۔دوسری طرف بھارت کی جانب سے کچھ کے میدان میں پہنچنے کے تمام راستے تقریباً ناقابلِ رسائی تھے۔ سب سے نزدیک 31ویں بریگیڈ احمد آباد میں تھی جہاں سے نزدیکی ریلوے سٹیشن بھوج سے 180 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ بھوج یوں تو اس علاقے کا ایک چھوٹا شہر تھا لیکن متنازع پاکستانی سرحد سے 110 میل کے فاصلے پر تھا۔جھگڑے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب بھارتی سکیورٹی فورسز کو پتہ چلا کہ پاکستان نے ڈینگ اور سرائي کو ملانے کے لیے 18 میل طویل ایک کچی سڑک بنا لی ہے۔ یہ سڑک کئی مقامات پر بھارتی سرحد کے ڈیڑھ میل اندر تک جاتی تھی۔ بھارت نے اس مسئلے پر مقامی اور
سفارتی سطح پر احتجاج کیا تھا۔پاکستان نے اس کے جواب میں 51 ویں بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر اظہر کو اس علاقے میں مزید جارحانہ گشت کرنے کا حکم دے دیا۔ ادھر مارچ کے آتے آتے بھارت نے بھی كجركوٹ کے قریب نصف کلومیٹر جنوب میں سردار چوکی بنالی۔بھارت کو اس وقت اور شرمسار ہونا پڑا جب پاکستان نے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو بلا کر بھارتی فوجیوں کے
چھوڑے ہوئے ہتھیاروں اور گولہ بارود دکھائے۔پاکستان کے کمانڈر میجر جنرل ٹکّا خان نے بریگیڈیئر اظہر کو حکم دیا کہ حملہ کر کے بھارت کی نئی بنی سردار چوکی کو تباہ کر دیا جائے۔نو اپریل کی صبح دو بجے پاکستانی حملہ شروع ہوا۔ انھیں سردار چوکی، جنگل اور شالیمار نام کی دو مزید بھارتی چوکیوں پر قبضہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔شالیمار چوکی پر تعینات سپیشل ریزرو پولیس
کے جوان، مشین گن اور مارٹر فائر کے کور میں آگے بڑھتے ہوئے پاکستانی فوجیوں کا مقابلہ نہیں کر پائے۔ تاہم سردار چوکی پر تعینات پولیس اہلکاروں نے زبردست مزاحمت کی۔ 14گھنٹوں کے زبردست حملے کے بعد بریگیڈیئر اظہر نے گولہ باری روکنے کا حکم دیا۔اس دوران سردار چوکی کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار دو میل واپس وجیو كوٹ چوکی پر چلے آئے۔پاکستانیوں کو اس کا پتہ نہیں چلا
اور انھوں نے بھی اپنے فوجیوں کو واپس اسی جگہ پر واپس کرنے کا حکم دیا جہاں سے انھوں نے صبح حملہ شروع کیا تھا۔شام کو واپس آنے والے جوانوں کو احساس ہوا کہ سردار چوکی پر کوئی بھی پاکستانی فوجی نہیں ہے۔ انھوں نے شام ہوتے ہوتے بغیر لڑے دوبارہ اس چوکی پر قبضہ کر لیا۔بی سی چکرورتی نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف انڈو پاک وار، 1965‘ میں تبصرہ کیا ہے کہ
’پاکستان کی 51 ویں بریگیڈ کے کمانڈر نے اتنے ہی اناڑی پن سے آپریشن کو ہینڈل کیا جتنا ہندوستان کی 31 ویں انفینٹري بریگیڈ کے بریگیڈیئر پہلجاني نے۔‘24 اپریل کو بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی فوجیوں نے سیرا بیت پر قبضہ کر لیابھارت نے صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میجر جنرل ڈن کو ممبئی سے کچھ بھیجا۔پاکستان نے بھی اس دوران مکمل
آٹھویں انفینٹری ڈویژن کو کراچی سے پاکستانی شہر حیدرآباد بلا لیا۔اس وقت علاقے میں بریگیڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سندرجي نے پولیس کی وردی پہن کر علاقے کا معائنہ کیا اور مشورہ دیا کہ بھارت کو كجركوٹ پر حملہ کر دینا چاہیے، لیکن حکومت نے ان کے مشورے کو تسلیم نہیں کیا۔بعد میں یہی سندرجي بھارت کے آرمی چیف بنے اور اسی علاقے میں انھوں نے سنہ 1987 میں
مشہور براس ٹیك فوجی مشق کی جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کی فوجیں تقریباً جنگ کے دہانے پر پہنچ گئیں۔اس درمیان دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان نے بھارتی فضائی فوج کے سربراہ ایئر مارشل ارجن سنگھ کو فون کر کے پیشکش کی کہ دونوں ممالک کی فضائیہ اس جنگ سے اپنے آپ کو الگ رکھیں۔اگرچہ اصغر خان نے
اپنی سوانح عمری ’دی فرسٹ راؤنڈ‘ میں اس واقعے کا ذکر نہیں کیا لیکن بعد میں یہ قیاس آرائی کی گئی کہ شاید اسی کی وجہ سے جنگ شروع ہونے سے صرف دس روز قبل ایوب خان نے انھیں ان کے عہدے سے ہٹا کر ایئر مارشل نور خاں کو پاکستانی ایئر فورس کا سربراہ بنا دیا تھا۔24 اپریل کو بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ کی قیادت میں پاکستانی فوجیوں نے سیرا بیت پر قبضہ کر لیا۔
انھوں نے اس کے لیے پوری دو ٹینک رجمنٹیں اور توپ خانے کا استعمال کیا اور بھارتی فوجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔اگلے دو دنوں میں بھارتی فوجیوں کو بیئر بیت کی چوکی بھی خالی کرنی پڑی۔برطانیہ کی مداخلت سے دونوں فوجیں اپنے پرانے محاذ پر واپس چلی گئیںبھارت کو اس وقت اور شرمسار ہونا پڑا جب پاکستان نے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کو بلا کر بھارتی فوجیوں کے
چھوڑے ہوئے ہتھیاروں اور گولہ بارود دکھائے۔بعد میں برطانیہ کی مداخلت سے دونوں فوجیں اپنے پرانے محاذ پر واپس چلی گئیں۔فرخ باجوہ نے اپنی کتاب ’فرام کچھ ٹو تاشقند‘ میں لکھا کہ اس سے پاکستانی فوج کو کم سے کم محدود سطح پر ہی سہی، بھارتی فوج کی صلاحیت کو آزمانے کا موقع ملا۔بھارت کے اس وقت کے ڈپٹی چیف جنرل كمارمگلم نے کہا: ’بھارت کے لیے کچھ کی لڑائی
صحیح دشمن کے ساتھ غلط وقت پر غلط جنگ تھی۔‘ اس جنگ میں پاکستان ہندوستان پر بھاری پڑا لیکن اس کی وجہ سے ’پاکستان کو یہ غلط فہمی بھی ہو گئی اور اس کا انھیں بہت نقصان بھی ہوا کہ کشمیر کی جنگ ان کے لیے كیک واک ثابت ہوگی۔‘پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر شنکر باجپئي کاکہنا ہے کہ یہ تصادم بھارت کے لیے نعمت ثابت ہوا کیونکہ اس سے وہ
پاکستان کے عزائم سے باخبر ہو گیا۔تین ماہ بعد جب پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کا آغاز کیا تو ہندوستانی فوج ان سے نمٹنے کے لیے پہلے سے تیار تھی۔