ماں کی محبت اورماں کی شان
ماں، زندگی کا ایک بے مثال اور بے نظیر تحفہ ہے۔ اس کی محبت، دل کو چھو جانے والی اور نرمی سے بھری ہوتی ہے۔ ماں کی عظمت، اس کے فراز و نشیں میں ہوتی ہے، جو اس کی بہتانیں کبھی نہیں پہنچ سکتیں۔ اور ماں کی شان، اس کی فراست اور قربانیوں میں ہوتی ہے، جو اس کو دنیا کی سب سے بڑی شخصیت بناتی ہے۔ ماں کی محبت، عظمت اور شان، ہر زندگی کو معنی بخشتی ہیں۔
ماں کی محبت
وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں ماں کیساتھ بازار گیا ہوا تھا تو کلائی پہ باندھنے والی ایک گھڑی پر دل آ گیا، میں نے ماں سے ضد کی مجھے گھڑی خرید کر دیں لیکن گھڑی مہنگی ھونے کے سبب ماں نہ دلوا سکیں۔اور ہم ضد کرتے روتے روتے ماں کیساتھ گھر آ گئے اور گھر آتے ہی گھر سر پراٹھا لیا۔ اس وقت کی خوش قسمتی یہ تھی کہ والدِ محترم گھر موجود نہ تھے ورنہ اتنا شور مچانے کی مجال ہی نہ ہوتی
اور گھڑی کی حسرت صرف حسرت ہی رہ جاتی پر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔پھر صاحب ہوا کچھ یوں کہ ماں نے کھانا دیا اور ہم نے انکار کیساتھ ساتھ کھانا بھی اٹھا مارا، و۔ہاں ماں کو تھوڑا غصہ آیا اور آخر کہہ ہی دیا نہیں کھانا نہ کھاؤ مرو جا کر کہیں۔ تمہارے نخرے اْٹھانے کیلئے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں، دفع ہو جاؤ اور مجھے دوبارہ شکل مت دکھانا۔تو صاحب انا بھی ہمارے اندر خدا نے دبا دبا کر شروع سے ہی بھری ہوئی ہے، ماں کے یہ الفاظ سننا تھے کہ اْٹھ کھڑے ہوئے اور منہ اْٹھا کر گھر سے چل دیے۔غالباً چھ سے سات گھنٹے ہم نے جتنی بے فکری سے گزارے شاید ماں نے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ کرب ناک گزارے ہوں گے اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب ہم نے ایک مسجد کے اسپیکر سے اپنی گمشدگی کا اعلان سنا تو گھر کی جانب رْخ کر لیا۔
راستے میں میرا پھوپھو زاد ملا، جو مجھے ہی ڈھونڈنے نکلا تھا۔ مجھے گھر لے گیا جاتے ہی کیا دیکھا ماں کے ایک ہاتھ میں گھڑی ، ایک ہاتھ میں کھانا اور آنکھوں میں میری نادانی یعنی آنسو لیے بیٹھی میری راہ تک رہی تھیں مجھے دیکھتے ہی گلے سے لگایا ،ماتھا چومتے ہوئے گھڑی باندھی ، کہا تم نے دوپہر سے کھانا بھی نہیں کھایا۔ کیا حشر کر لیا اپنا اور جو کرنے کا حکم مجھے دیا تھا اپنے اْوپر لے لیا۔کہتی اگر میں مر جاندی تے فیر ساری عمر تو گھڑیاں ای پانیاں سی( اگر میں مر جاتی تو تم ساری عمر گھڑیاں ہی پہنتے میری کوئی فکر نہیں تم کو )اْس دن ہونے والا ایک واقعہ جو مجھے اب کبھی یاد آئے تو سارا دن بال نوچنے کو جی کرتا ۔ اگر رات میں یاد آئے ساری رات بستر پر نہیں کانٹوں پہ گزرتی ہے۔
ہاسٹل میں رہتے ہوئے جی کرتا ابھی اڑ کر ماں کے پاس چلا جاؤں اور سر پیٹ پیٹ کر انہی قدموں میں جان دے دوں۔ جب یہ یاد آتا ہے کہ جب ماں حق مہر میں ملی ہوئی ہزاروں کی ملکیت رکھنے والی کان کی بالیاں صرف پانچ سو میں بیچ کر اْس دن میرے لئے گھڑی لائی۔
شان
ماں ایک باشعور اور عظیم خاتون ہے- جو بچوں کی زندگی میں باد صبا کی مانند ہے- جو اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتی ہے- جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتی ہے، اپنی خواہشات کو خاک میں ملا دیتی ہے، اپنی خوشیوں کا جنازہ نکال دیتی ہے جو خود نہیں کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے- لیکن آج معاشرے میں ایسے ایسے نوجوان پیدا ہوئے ہیں جو اپنی ماں کو گالیاں دیتے ہیں- برا بھلا کہتے ہیں- مارتے ہیں- یہاں تک کہ اس کے خود کے گھر سے بھگا دیتے ہیں- شاید انہی لوگوں کے لیے الله رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
- اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرو، انہیں بھلا برا مت کہو! یہاں تک کہ اف تک نہ کہو- انہیں مت جھڑکو بلکہ نرمی کے ساتھ پیش آؤ، ادب واحترام سے کلام کرو
عظمت
ماں کی عظمت کے بارے میں ایک واقعہ بہت اہم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے زمانے میں ایک شخص قریب المرگ تھا مگرنہ تواُس کی زبان سے کلمہ جاری ہوتاتھااور نہ ہی اُسے موت آتی تھی۔ وہ نہایت تکلیف میں تھا۔صحابہؓ میں سے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور ساری کیفیت بتائی۔آپﷺ نے پوچھا کیااس شخص کی والدہ زندہ ہے؟ بتایاگیازندہ ہے مگراس سے ناراض ہے۔ تب آپ نے فرمایااس کی والدہ سے کہاجائے کہ وہ اسے معاف کردے۔جب والدہ نے معاف کرنے سے انکار کیا تونبی کریم نے صحابہؓ کوحکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں تاکہ اُس شخص کوجلادیاجائے۔ جب اُس کی ماں نے یہ حالت دیکھی توفوراًمعاف کردیا۔ جب ماں نے اُسے معاف کیاتوپھراس شخص کی زبان سے کلمہ بھی جاری ہوگیا۔