اتوار‬‮ ، 27 اپریل‬‮ 2025 

یہ خواب نہیں تھا

datetime 21  جنوری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لق و دق صحرا میں ایک سوار چلا جا رہا ہے اس کی اونٹنی صبا رفتار اور خوش اطوار ہے، اس پر ایک چھاگل میں پانی رکھا ہوا ہے اور ایک توشہ دان میں ہفتوں کے لئے خوراک بھی محفوظ ہے۔ نہایت اطمینان سے سوار کا سفر جاری تھا کہ دھوپ تیز ہو گئی اور ریگستان جہنم زار بن گیا۔ تھوڑی دیر تک تو سوار دھوپ کی تمازت کا مقابلہ کرتا رہا لیکن آخر کار تھک گیا۔

اس نے دیکھا کہ اس لق و دق صحرا کے ایک کنارے پر چند درخت ہیں۔ سایہ کی تلاش میں اس نے ادھر کا رخ کیا اور ایک درخت کے سایہ بستہ جما لیا ۔ سوچا کہ تھوری دیر آرام کر لوں جب ذرا دن ڈھلے گا تو سفر شروع کروں گا۔ اس نے اونٹنی کو اسی درخت سے باندھا اور لیٹ گیا درخت کے سایہ میں تھکے ہارے مسافر کو اتنا آرام ملا کہ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ وہ دیر تک پڑا سوتا رہا۔ نیند ہی کی حالت میں اس پر پیاس کا اتنا غلبہ ہوا کہ آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو صحرا میں آگ برس رہی ہے۔ اس خیال سے اٹھا کہ اونٹنی پر سے چھاگل اتار کر اپنی پیاس بھجائے۔ لیکن یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ اونٹنی غائب ہے۔ اس نے دور دراز تک ریگستان میں نگاہ دوڑائی لیکن اونٹنی کا نام و نشان نظر نہ آیا۔ وہ دیوانہ وار ریگستان میں اونٹنی کو تلاش کرنے لگا۔ اسے تلاش نہ کرتا تو کیا کرتا۔ اس وقت وہ اونٹنی ہی تو اس کا سرمایہ حیات تھی، اسی پر سوار ہو کر وہ سفر کر سکتا تھا، اسی اونٹنی پر اس کا زاد راہ تھا۔ اگر اونٹنی غائب ہو جائے تو اس ویرانے میں سوائے موت کے اس کے لئے کوئی دوسری صورت نہیں تھی۔سوار مغرب کی طرف دوڑتا ، مشرق کی طرف گیا، جنوب و شمال کے کونے چھان مارے۔ لیکن اونٹنی نہ ملتی تھی نہ ملی ۔ اس دوڑ دھوپ میں پیاس نے مزید شدت اختیار کر لی۔ اب تو اس کی زبان پر کانٹے پڑ گئے۔ حلق خشک، چہر سایہ اور قدم میں لڑکھڑاہٹ، گرتا پڑتا درخت کے پاس آیا۔ دم لبوں پر ہے اور خیال کے نگاہ کے سامنے موت کا چہرہ صاف نظر آ رہا ہے۔

اس کا دل یاس و حرماں کے اتھاہ سمندر میں ڈوبنے لگا زار و نزار سوار انتہائی نا امیدی کے عالم میں موت کا استقبال کرنے کے لئے لیٹ گیا آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں۔ ہاتھ پیر سے جان نکلنے لگی تھی کہ یک بیک اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھا تو جو اس نے دیکھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ یا اللہ! میں یہ خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ وہ آنکھیں میچ میچ کر دیکھنے لگا۔

مگر یہ خواب نہیں تھا۔ ایک ٹھوس حقیقت تھی ۔ اونٹنی توشہ دان اور چھاگل سمیت اس کے سرہانے کھڑی تھی۔ سوار جب یاس کی بے کراں تاریکی سے بیک لحظ مسرت کی روشنی میں اور موت کی تاریک وادی سے حیات کے جگمگاتے اجالے میں داخل ہوا تو وہ خوشی سے ایسا دیوانہ ہو گیا

کہ اسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اس کے منہ سے کیا نکل رہا ہے، کہنے لگا “اے میرے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں” (نعوذ باللہ) حالانکہ اسے کہنا چاہیے تھا کہ “اے میرے اللہ! میں تیرہ بندہ اور تو میرا رب ہے”۔۔۔۔ بہر صورت اس کی یہ غلطی قابل معافی تھی۔

فرط مسرت میں اگر بے ساختہ یہ جملہ نکل گیا تو معافی مل سکتی تھی ۔۔۔۔ مسلم شریف میں ہے: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “اونٹنی کے مل جانے پر سار کو جتنی خوشی ہوئی تھی اس سے بہت زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اس وقت ہوتی ہے جب کوئی گنہگار بندہ اس کے حضور توبہ کرتا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



قوم کو وژن چاہیے


بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…