ایک بادشاہ نے بڑی چاہت سے اپنا محل بنوایا‘ تعمیری کام کیلئے اپنے خزانے کے دروازے کھول دیئے‘ جو چیز اس کو محسوس ہوئی کہ اچھی نہیں بنی اسے دوبارہ اچھا بنوایا حتیٰ کہ بادشاہ کی نظر میں وہ محل اتنا خوبصورت تھا کہ اس میں کوئی بھی خامی نہ بچی تھی‘ بادشاہ نے اپنی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ جو کوئی اس محل میں نقص نکالے گا میں اس کو انعام دوں گا‘
لوگ آتے محل کو دیکھتے انہیں اس میں کوئی عیب نظر نہیں آتا‘ چنانچہ کئی دن اسی طرح گزر گئے‘ لوگ آ کر دیکھتے رہے اور واپس جاتے رہے کسی کی ہمت نہ تھی کہ بادشاہ کے بنے ہوئے محل میں کوئی نقص نکالتا‘ ایک اللہ والے کا ادھر سے گزر ہوا‘ انہوں نے بادشاہ کی یہ بات سنی وہ بھی محل دیکھنے کیلئے آئے‘ محل دیکھنے کے بعد بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے اور کہنے لگے بادشاہ سلامت مجھے آپ کے محل میں دو عیب نظر آ گئے‘ چنانچہ اس نے پوچھا‘ بتاؤ کون کون سے عیب ہیں؟ تو وہ اللہ والے کہنے لگے بادشاہ سلامت اس میں دو عیب ہیں ایک یہ کہ یہ محل ہمیشہ نہیں رہے گا ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گا اور دوسرا عیب یہ ہے کہ تو بھی اس میں ہمیشہ نہیں رہیگا ایک نہ ایک دن تجھے بھی محل چھوڑنا پڑے گا۔ جس طرح لوگوں کو یہ عیب نظر نہ آیا بلکہ اللہ والے کو نظر آیا اسی طرح اندر کا عیب بھی خود نظر نہیں آتا‘ شیخ اور ولی کو نگاہ معرفت سے عیب معلوم ہو جاتا ہے اور اس کی اصلاح کر دیتے ہیں۔