ابراھیم بن ادھم کے پیر و مُرشد حضرت فضیل بن عیاض کا لوگوں میں بڑا چرچا تھا۔ ہارون رشید ان سے ملنا چاہتا تھا۔ آپ ہمیشہ ٹال جاتے تھے لیکن ایک دن ہارون رشید کسی اطلاع کے بغیر اُن کی خدمت میں پہنچ گیااور سلام عرض کرنے کے بعد کہا۔ ” حضرت! میں نصیحت سننے آیا ہوں ، کچھ ارشاد فرمائیں!”فضیل بن عیاض نے جواب دیا۔ “ہارون ! اللہ سے ڈر اور جسم جہنّم کی آگ سے بچا!”ہارون نے سوال کیا۔ “وہ کس طرح؟”
آپ نے جواب دیا۔ ” اگر تیری وسیع سلطنت میں ایک انسان بھی بھوکا سویا تو اس کا تجھ سے مواخذہ ہو گا۔ جب کوئی شخص خدا سے ایک ایسی شے طلب کرتا ہے جو اس کے مقسوم میں نہیں ہے تو خدا اپنی رحمت کے بے پایاں اظہار کے لیے آخرت کی نعمتوں میں سے عطا فرما دیتا ہے ، اس قسم کی فیاضی تم بھی اختیار کرو!”
ہارون رشید نے پوچھا۔ ” اور کچھ؟”آپ نے جواب دیا۔ ” اور دُنیا میں بے عیب دوستوں کو مت تلاش کرو کیونکہ اس کوشش میں اپنے تمام دوستوں سے محروم ہو جاؤ گے، یاد رکھو دو عادتیں انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔ بہت کھانا اور بہت سونا۔ اگر اللہ مجھ سے یہ کہے کہ میں تیری صرف ایک دُعا قبول کروں گا، جو مانگنا ہے مانگ لے تو اس وقت میں بادشاہ کی بہتری کے لیے دُعا مانگوں گا کیونکہ بادشاہ کی درستی اور بہتری ہی سے پورے ملک اور قوم کی بہتری وابستہ ہے۔ “ہارون رشید نے اٹھنے سے پہلے آپ کی خدمت میں ایک تھیلی پیش کی۔ آپ نے ترشی سے کہا۔ ” کیا میرے احسان کا یہی بدلہ ہے ؟ میں تو تمھیں بچانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم مجھے مصیبتوں میں پھنسا دینا چاہتے ہو۔ “