قطب الدین نیشا پوری سلطان نورالدین زنگی کا پرانا درباری تھا جب اس نے دیکھا کہ انتہائی بے خوفی سے سلطان دشمنوں کے لشکر میں گھس رہا ہے اور پھر اس جمگھٹ سے نکلتا ہے تو اس کا دل کانپ گیا۔ وہ بے تحاشا چیخنے لگا۔ سلطان! خدا کے لئے ہمیں امتحان میں نہ ڈالیئے۔ اگر خدانخواستہ آپ مارے گئے تو گویا ساری مخلوق ماری جائے گی دشمن اس ملک کو فتح کر لیں گے اور مسلمان تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
لڑائی گھمسان کی ہو رہی تھی شور و ہنگامہ اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی مگر چیختے چیختے قطب الدین نیشا پوری سلطان کے قریب پہنچ گیا۔ سلطان نے اس کی آواز سن لی اور اسی وقت قطب الدین نیشا پوری کو ڈانٹا۔ قطب الدین اپنی زبان بند کر تو اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی کر رہا ہے۔ میری کیا حیثیت ہے مجھ سے پہلے اس دین اور مملکت کا اللہ کی ذات کے سوا کون محافظ تھا۔ میں تو اس کا ادنیٰ غلام اور اس کے دین کا چاکر ہوں! اس عالی بارگاہ میں نورالدین زنگی جیسے بے شمار خادم ہیں۔ میری حیات و موت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ میرے لئے یہ عین سعادت ہے کہ اس نے مجھے اپنے دین کی خدمت اور جہاد فی سبیل اللہ کی توفیق بخشی۔
سلطان نورالدین زنگی نے یہ کہا اور بری طرح رونے لگا۔ ” مالک ! میرے اس درباری کی غلطی کو معاف فرما کر اس کی نظر تھوڑی دیر کے لئے حقیقت سے ہٹ کر حجاز پر ٹھہر گئی تھی” ۔مولا! بادشاہت و سلطنت صرف تجھ ہی کو زیبا ہے۔ ہم تو آج اس لئے عزت دار ہیں کہ تیرے دین کا پرچم ہمارے ہاتھوں میں اور تیرے پاک رسول ﷺ کی غلامی کا جوا ہماری گردن پر ہے” سلطان چونکہ اپنی حقیقت کو جانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس پر کرم فرمایا اور ہر معرکہ میں فتح مند کیا۔ نور الدین کے دربار میں امیروں اور رئیسوں کی عزت نہیں تھی۔ البتہ اگر اسے معلوم ہو جاتا کہ کوئی عالم دین آ رہا ہے تو وہ خود اس کے استقبال کے لئے تخت سے اٹھ کھڑا ہوتا اور انہیں بڑی عزت و تکریم سے اپنے مسند پر بٹھاتا کہ علم اللہ کا نور ہے اور ہر حال میں قابل احترام۔