اتوار‬‮ ، 17 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ہجرت

datetime 9  جولائی  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

( زیروپوائنٹ) جاوید چودھری’’میرے پاس کوئی آپشن نہیں بچا‘ میں مایوسی کی انتہا کو چھو رہا ہوں‘‘ اس کی آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی‘ میں نے ٹشو پیپرز کا ڈبہ اس کے سامنے رکھ دیا‘ اس نے دو پیپرز کھینچے اور آنکھوں پر رکھ کر رونے لگا۔انسان کی زندگی میں اکثرایسے لمحے آتے ہیں جب اس کا رزق تنگ ہو جاتا ہے‘ اس کے تمام عزیز ‘رشتے دار اور دوست اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور زندگی کی خوشیاں پتوں کی طرح ایک ایک کر کے جھڑ جاتی ہیں

اور وہ خود کو مکمل طور پر ہوپ لیس محسوس کرتا ہے۔ یہ ’’میک اینڈ بریک‘‘ کا لمحہ ہوتا ہے اور اس لمحے میں زیادہ تر لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں‘ دنیا میں ہر سال 21لاکھ لوگ خود کشی کرتے ہیں اور یہ 21لاکھ لوگ مرنے سے قبل اسی قسم کی صورتحال کا شکار ہوتے ہیں‘ یہ نوجوان بھی اس وقت اسی قسم کی صورتحال سے گزر رہا تھااور میں چپ چاپ اس کی گفتگو سن رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا دس برسوں میں اس کا سارا کاروبار تباہ ہوگیا‘ اس نے نوکری کیلئے کوشش کی مگرنوکری نہیں ملی‘ بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی‘ بھائیوں نے اپنے دروازے بند کر دئیے‘ والدین انتقال کر گئے‘ دوست ساتھ چھوڑ گئے‘ قرض داروں نے اس کی زندگی عذاب کر دی اور خود وہ دمے کا مریض ہو گیا۔ اس کا کہنا تھا زندگی اس کیلئے موت سے بدتر ہو چکی ہے چنانچہ اس نے اب مرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں نے پوچھا ’’پھر تم میرے پاس کیوں آئے ہو‘‘ اس نے بتایا وہ مرنے سے پہلے کسی کو اپنی کہانی سنانا چاہتا تھا‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد اس سے پوچھا ’’کیا تم نے تاریخ پڑھی ہے‘‘ اس نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ میں نے پوچھا ’’کیا تم نے انبیائے کرام کا احوال پڑھاتھا‘‘اس نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ میں نے پوچھا ’’تم نے اس احوال سے کیا سیکھا‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا

اور ذرا سا سوچ کر بولا ’’کچھ خاص نہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’دنیا کے تمام نبی زندگی میں کسی نہ کسی وقت مشکل وقت سے گزرے تھے‘ اس مشکل وقت میں دکاندار انہیں سودا نہیں دیتے تھے‘ گاؤں اور بستی کے لوگوں نے ان کا حقہ پانی بند کر دیا تھا‘ وہ کنوئیں سے پانی تک نہیں لے سکتے تھے اور ان کے سنگی ساتھی‘ عزیز رشتے دار حتیٰ کہ والدین تک نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا‘ اس مشکل وقت میں انبیائے کرام نے کیا کیا؟‘‘

میں خاموش ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگا‘ اس نے تھوڑی دیر سوچا‘ انکار میں سر ہلایا اور آہستہ سے بولا ’’آئی ڈونٹ نو‘‘ میں نے مسکرا کر سر ہلایا اور نرم آواز میں جواب دیا ’’ہجرت‘ انبیائے کرام نے اس مشکل وقت میں ہجرت کی تھی‘ وہ ایک بستی سے نکل کر دوسری بستی میں چلے گئے تھے اور اس ہجرت نے ان پر اللہ کے کرم کے سارے راستے کھول دئیے تھے‘‘ ۔وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا رہا‘

میں نے عرض کیا ’’سکون‘ آرام‘ خوشیوں‘ کامیابیوں‘ کاروبار‘ دوستوں‘ عزیزوں‘ رشتے داروں اور رزق کا ایک کوٹہ ہوتا ہے‘ یہ کوٹہ مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر ہوتاہے‘ آپ جب کسی ایک جگہ مقیم ہوتے ہیں تو یہ کوٹہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے‘ آپ اس جگہ موجود اپنے حصے کا رزق کھا جاتے ہیں‘ آپ اپنے حصے کا سکون‘ آرام‘ خوشی‘ آسائش‘ کامیابی‘ کاروبار اور دوستی کنزیوم (خرچ) کر لیتے ہیں

جس کے بعد آپ بے روزگاری‘ معاشی بدحالی‘ ناکامی‘ غم ‘ پریشانی‘ بے آرامی اور بے سکونی کا شکار ہو جاتے ہیں اورآپ اس کو اپنی بد نصیبی سمجھنے لگتے ہیں ‘ آپ کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ آپ جس جگہ پر موجود ہیں وہاں آپ کے حصے کا کوٹہ ختم ہو چکاہے اور اب آپ جب تک خوشیوں کا نیا کھیت تلاش نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کے مقدر کے دروازے نہیں کھلیں گے‘‘ وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ میں نے عرض کیا

’’تم نے جانوروں اور پرندوں کو دیکھا ‘ یہ کیاکرتے ہیں؟ جب ایک چراگاہ ختم ہو جاتی ہے‘ جب ایک کھیت اجڑ جاتا ہے‘ جب کسی ایک چشمے کا پانی سوکھ جاتا ہے‘ جب کسی ایک جگہ سختی‘ مشکل یا قحط آتا ہے اور جب کسی ایک جگہ موسم میں شدت آتی ہے تو پرندے اور جانور کیا کرتے ہیں؟ یہ آگے کی طرف چل پڑتے ہیں۔ سائبیریا کے پرندے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے یورپ‘ فلپائن اور آسٹریلیا کے ساحلوں پر اتر آتے ہیں‘

منگولیا کی ہرنیں پولینڈ پہنچ جاتی ہیں اور آسام کے شیر مظفر آباد آ جاتے ہیں۔۔کیوں؟ کیونکہ یہ زمینی حقائق کو انسانوں سے زیادہ سمجھتے ہیں چنانچہ یہ سختی کے زمانوں میں اپنا دیس بدل لیتے ہیں‘ یہ نئی چراگاہیں اور نئے جنگل تلاش کر لیتے ہیں اور یوں مسرتوں کے نئے خزانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس دوران جب ان کے آبائی دیسوں کے حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں‘ وہاں برفیں پگھل جاتی ہیں‘ قحط ختم ہو جاتے ہیں

یا بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں تو یہ واپس اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں اوریوں ان کی زندگی بھی قائم رہتی ہے اور ان پر خوشیوں اور مسرتوں کا سلسلہ بھی کھلا رہتا ہے‘‘ وہ خاموشی سے سنتا رہا‘ میں نے عرض کیا ’’دنیا میں دو قسم کے فلسفے ہیں‘ ایک ہنس کا فلسفہ ہے اور دوسرا مرغابی کا زاویہ نظر۔ دنیا میں جب کوئی جوہڑ‘ تالاب یا ندی سوکھتی ہے تو مرغابی فوراً نقل مکانی کر جاتی ہے

جبکہ ہنس اس سوکھی ندی‘ اس تالاب اوراس جوہڑ کے کنارے بیٹھا رہتا ہے‘ وہ کنارے پربیٹھے بیٹھے بھوکا پیاسا مر جاتا ہے اور تمہارا مسئلہ یہ ہے! تم ہنس کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہو‘ اس شہر میں تمہارے حصے کا رزق‘ خوشیاں‘ مسرتیں اور کامیابیاں ختم ہو چکی ہیں لیکن تم یہ جوہڑ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہو چنانچہ تم ہنس کی طرح آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہے ہو‘

اگر تم نے قدرت کے اتنے واضح سگنل کو نہ سمجھا تو تمہارا حشر ہنس جیسا ہوگا‘ تم بھی کسی خشک چٹان پر مرے ہوئے پائے جاؤ گے‘‘۔وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا رہا‘ میں نے عرض کیا ’’تم نے اکثر ایسے لوگوں کی کہانیاں سنی ہوں گی جو حالات کے جبرکی وجہ سے خالی جیب کسی اجنبی ملک میں اتر گئے اور اس پورے ملک‘ اس پورے شہر میں ان کا کوئی جاننے والا نہیں تھا‘ وہ اس شہر کی زبان سے بھی واقف نہیں تھے

لیکن پھر چند برس بعد وہ اس شہر کے رئیس ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے‘ اس شہر میں ان کے پاس بڑے بڑے فارم ہاؤسز‘ بڑے بڑے کارخانے‘ بڑے بڑے دفتر اور بڑے بڑے پلازے تھے‘ یہ لوگ ذاتی جہازوں کے مالک بنے اور دنیا بھر کی خوشیوں کے دروازے ان پر کھل گئے‘ کیسے؟ تم نے کبھی سوچا؟‘‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ چپ چاپ میری طرف دیکھتا رہا‘ میں نے عرض کیا

’’کیونکہ یہ لوگ مرغابی کی طرح کامیابی‘ خوشی اور رزق کے نئے سمندر کے کنارے جا بیٹھے تھے‘ انہوں نے ہجرت کی اور اللہ نے انہیں رزق کے نئے بینک کے سامنے اتار دیا‘‘ میں نے عرض کیا ’’تم حالات کے جس جبر کا شکوہ کر رہے ہو‘ تم جسے مایوسی اور بدنصیبی سمجھ رہے ہو وہ دراصل خوشیوں اور کامیابیوں کا نیا راستہ ہے‘ یہ قدرت کی طرف سے تبدیلی کے سگنلز ہیں

مگر تم ہنس بن کر قدرت کے ان سگنلز کو سمجھنے سے انکاری ہو۔ تم یقین کرو تم ان سگنلز کو انڈرسٹینڈ کرنے میں جتنی تاخیر کرو گے تمہاری فرسٹریشن اور ڈپریشن میں اتنا ہی اضافہ ہوگا‘ تم اپنے مقدر کے اجڑے ہوئے کھیتوں میں رزق تلاش کر رہے ہو مگریہاں سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا چنانچہ جتنی جلدی ہو سکے تم ہجرت کرو تاکہ تم پر مقدر کے نئے دروازے کھل جائیں‘‘ وہ خاموش ہو کر سنتا رہا‘ میں نے عرض کیا

’’تم یقین کرو اگر خود کشی کا ارادہ کرنے والا ہر شخص موت سے پہلے ہجرت کر جائے تو اس کے سارے حالات بدل جائیں‘ وہ اپنے وقت کا رئیس ترین شخص ہو کیونکہ کامیابی ہجرت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ دنیا میں تو اللہ کے پیغمبرؐ بھی مکہ فتح کرنے کیلئے پہلے مدینہ جاتے ہیں اور تم اپنے شہر میں رہ کر کامیابی بھی چاہتے ہو اور رزق کی کشادگی بھی۔ تم سے بڑا بے وقوف کون ہے‘‘۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…