لیکن اس مخلوق کے حوالے سے توہمات اب بھی موجود تھے کیونکہ اس کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکا تھا اور اس کا تذکرہ اب بھی کہانیوں کی ہی صورت میں کیا جاتا تھا۔ لیکن دسمبر 1933ء میں ایک واقعہ ہوا جس نے سائنس کے سنجیدہ طالب علموں اور ماہرین کو اس کی کھوج لگانے پر مائل کیا۔ ہوا یوں کہ برطانیہ کی ’Zoological Society‘ کے ایک سائنس دان مائیکل ویدرل کو لوچ نیس کے پیروں کے نشانات ملے۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ مخلوق پانی کے ساتھ ساتھ خشکی پر بھی رہ سکتی ہے اور لوگوں سے چھپ کر ساحل پر چہل قدمی کرتی ہے۔ یہ نشانات ایسی مخلوق کے تھے جس کے چار پیر تھے۔ ہر پیر کا حجم آٹھ انچ تھا۔ جبکہ ان نشانات سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ مخلوق اپنی جسامت میں بیس فٹ لمبی ہوگی۔ یہ مخلوق لوچ نیس ہی تھی جیسا کہ بعد میں اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں ثابت ہوا۔ مائیکل ویدرل نے ان نشانات کے پلاسٹر آف پیرس کی مدد سے سانچے تیار کئے اور انہیں لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کو بھیج دیا جہاں ان پر مزید تحقیقات شروع ہوئیں۔
تاہم لوچ نیس کی اسطور کے حوالے سے سب سے ٹھوس ثبوت نیدر لینڈ کے ایک شخص ناڈیم کیمر نے فراہم کئے۔ وہ ایک مقامی اخبارکے لیے فوٹوگرافر کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس نے بھی ایک ایسی ہی مہم میں حصہ لیا تھا جو لوچ نیس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے نکلی تھی۔ وہ مہم کے دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ ہائی لینڈز کے اس مقام کے گرداگرد گھوم رہا تھا جہاں لوچ نیس کے ظاہر ہونے سے متعلق کہانیاں مشہور ہوئی تھیں تو اچانک لوگوں نے پہاڑ کے عقب میں ایک چٹان سی ابھرتی ہوئی دیکھی اور انہیں اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ اب جو کچھ بھی ظاہر ہوگا‘ وہ لوچ نیس کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ ناڈیم کیمر نے فوراً ہی اپنی طاقتور لینز والے کیمرے سے اس منظر کو کیمرے میں محفوظ کرنا شروع کیا۔ جہاز اگرچہ پہاڑ سے کافی دور تھا اور اس کے لوچ نیس کے قریب پہنچنے تک مونسٹر پھر سے پانی میں غائب ہو چکا تھا لیکن اس دوران ناڈیم کیمر ایسا کام کرچکا تھا جس نے اسے فوری طور پر عالمی شہرت عطا کرنی تھی اور یہ کام لوچ نیس کی اولین فوٹو گرافس اتارنے کا تھا۔ یہ واقعہ جون 1935ء میں ہوا۔ آج بھی سائنس دانوں کے پاس لوچ نیس کے حوالے سے سب سے ٹھوس اولین ثبوت یہ فوٹوگرافس ہی ہیں جنہیں بنیاد بنا کر وہ اپنے تحقیقات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔