ہفتہ‬‮ ، 12 جولائی‬‮ 2025 

دنیا کی تاریخ کا انوکھا مقدمہ چھوٹے نے بڑے بھائی کو ہرا کر ماں کو جیت لیا

datetime 4  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

عدالت کے کٹہرے میں دو بھائی آمنے سامنے کھڑے تھے دونوں اپنے اپنے دلائل دے رہے تھےعدالت کافی دیر تک دونوں بھائیوں اور ان کے وکلاء کے دلائل سنتی رہی جب دلائل کا سلسلہ رکا تو عدالت میں یکدم خاموشی سی چھا گئی ٗعدالت میں موجود ہر شخص فیصلہ سننے کیلئے بے تاب تھا ٗ ایک ایسے فیصلہ کہ جو شائد ہی تاریخ میں کسی عدالت نے سنایا ہو۔

قاضی چند لمحے خاموش رہا اور اس کے بعد دھیمے لہجے میں بولا’’ان کی ماں کو پیش کیاجائے‘‘ عدالتی ہرکارے آگے بڑھے پچھلی نشست پر بیٹھی ایک ڈھانچہ نما بڑھیا کو سہارا دیا اور قاضی کے سامنے پیش کر دیا ٗ قاضی بولا’’جی مائی جی ٗ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں‘‘؟ اماں جی نے کپکپاتے ہونٹوں سے عرض کیا ٗ ’’جناب عالی! یہ دونوں میرے بیٹے ہیں ٗ ایک اگر میری دائیں آنکھ ہے تو دوسرا میری بائیں آنکھ ۔ ایک اگر میرے دل کا دایاں خانہ ہے تو دوسرا میرے دل کا بایاں خانہ۔ عالی جاہ میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتی عدالت جو فیصلہ دے گی وہ مجھے قبول ہے ۔‘‘ قاضی کے ماتھے کی شکنیں گہری ہو گئیں ٗ چند لمحے توقف کے بعد جج نے دوبارہ دونوں بھائیوں کو بلایا اور باری باری ان سے کاروباری اور مالی پوزیشن کا جائزہ لیا ٗ جائزہ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے مقابلے میں زیادہ مالدار ہے لہٰذا فیصلہ اس کے حق میں دینا چاہئے اور قاضی نے چھوٹے بھائی کے حق میں فیصلہ سنا دیا فیصلہ سننا تھا کہ بڑے بھائی نے آہ و بکا شروع کر دی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی ٗ عدالت میں موجود ہر شخص کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دونوں بھائیوں کے درمیان جائیداد کا معاملہ تھا یا گھر اپنے نام کروانا تھا ۔ اماں کی دولت ہتھیانا تھی یا بیویوں کی لڑائی تھی یا پھر دونوں بھائیوں نے ماں کو برا بھلا کہا تھا ۔

نہیں ایسا کچھ بھی نہیں تھا ٗ تو پھر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بڑا بھائی رو کیوں رہا تھا۔ جی ہاں یہ ایک حقیقی واقعہ ہے یہ کوئی من گھڑت یا تصوراتی کہانی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی واقعہ ہے۔ یہ واقعہ سعودی عرب کے شہر قصیم کی شرعی عدالت میں پیش آیا ٗ بڑے بھائی کا نام تھا حیزان الفہیدی اور یہ بریدہ سے90کلو میٹر دور ایک گاؤں اسیاح کا رہائشی تھا اوراس واقعے کو سعودی عرب کے ایک بڑے اخبار’’الریاض‘‘ نے سرورق پر چھاپا اور کئی مساجد میں علمائے کرام نے بھی اس واقعے کا ذکر کیا ٗ جی ہاں ہوا یوں کہ حیزان اپنی ماں کا بڑا بیٹا تھا ٗیہ سارا وقت ماں کی خدمت میں صرف کرتا تھا ٗ

حیزان کی ماں ضعیف العمر اور مجبور عورت تھی ٗ ماں کی کل ملکیت پیتل کی ایک انگوٹھی تھی لیکن اس کے باوجود یہ دونوں ماں بیٹا ہنسی خوشی رہ رہے تھے کہ چھوٹے بھائی نے شہر سے آ کر بڑے بھائی سے مطالبہ کر دیا کہ وہ ماں کو ساتھ لے کر جائے گا ٗ بڑے بھائی کو یہ مطالبہ پسند نہ آیا‘ اس نے چھوٹے کو سختی سے منع کر دیا کہ وہ اسے کبھی ایسا نہیں کرنے دے گا ‘ ابھی اس میں اتنی ہمت اور استطاعت ہے کہ وہ ماں کی دیکھ بھال اور خدمت کر سکے۔ چھوٹا بھائی ضد پر آ گیا اس نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ ماں اس کے ساتھ رہے گی اور وہ اسے لے کر ہی شہر واپس جائے گا ۔

توتکار بڑھی تو چھوٹا بھائی عدالت پہنچ گیا اور اس نے عدالت میں بڑے بھائی کے خلاف پرچہ درج کروا دیا۔ عدالت نے پہلے پہل دونوں بھائیوں کو بلایا ٗ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کا کہا لیکن دونوں اپنے موقف پر ڈٹے رہے چنانچہ عدالت کو ان کی ماں کو طلب کرنا پڑا۔ ماں بھی کوئی فیصلہ نہ کر سکی تو عدالت نے چھوٹے بھائی کی مالی پوزیشن کو بہتر دیکھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ وہ ماں کو زیادہ خوش رکھ سکے گا۔ اس فیصلے کا آنا تھا حیزان نے بھری عدالت میں دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا ٗ اس کو قاضی سے گلہ تھا ٗ بھائی سے شکوہ تھا اور نہ ہی ماں سے شکایت۔

اس کو اعتراض تھا تو صرف اپنے مقدر پر۔ وہ چیخ رہا تھا آخر میں اپنی ماں کی خدمت کرنے پر قادر کیوں نہیں؟ آخر وہ کون سی خوشی ہے جو میں ماں کو نہیں دے سکتا لیکن بھری عدالت میں کوئی ایک شخص بھی اس کے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا ٗ ہر ایک کی آنکھیں بیٹے کی ماں سے محبت پر تر تھیں ٗ ہر حلق میں محبت پھندا بن کر اٹکی تھی اور حیزان کے کلیجے سے نکلتی آہیں عرش کو ہلا رہی تھیں تو فرش والوں کو جھنجھوڑ رہی تھیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کان پکڑ لیں


ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…