کراچی (این این آئی) سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن)کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ 1973 کے بعد بعد 10الیکشن ہوئے اور سب چوری ہوئے، یہاں لسٹیں بنتی ہیں جو کہنے پہ چلتے ہیں اور انہیں پارلیمان بھیجا جاتا ہے اور پارلیمان میں وہ لوگ پہنچے جو حقیقی نمائندے نہیں ہیں،پاکستان میں آج جو صورت حال ہے
وہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھی کیونکہ ہر شخص پریشان ہے اور اسے کوئی امید نظر نہیں آرہی، جو کچھ ہورہا ہے صرف اس حکومت یا پچھلی حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فیصلوں کے تسلسل، آئین شکنی کا نتیجہ ہے،معیشت سیاست کیساتھ جڑی ہوئی ہے سب کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا ہو گا ، اداروں کے سربراہان کی بھی ذمہ داری ہے کہ آئین کی پاسداری کرائیں، ہم سود کی ادائیگیوں کیلئے قرضے لیتے ہیں، صوبوں میں بھی احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگر عدلیہ اور فوج اپنا کام کرے تو سیاست میں میچورٹی آسکتی ہے۔ عدلیہ آئین کے حساب سے نہیں اپنی منشا کے حساب سے کام کرتی ہے، کبھی آئین کی پاسداربن جاتی ہے، کبھی ڈاکٹرائن اور کبھی ججز ہم خیال ہو جاتے ہیں، میرے دادا سندھ یا کراچی نہیں پاکستان ہجرت کرکے آئے ہیں اور سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ ملک میں معاشی بحران ہے، ہم سری لنکا نہیں ہیں، ملک ڈیفالٹ ہوا تو یہاں لوگ آگ لگائیں گے، یہاں سب کے پاس مسلح جھتے ہیں، ہمیں ملک سے نفرتیں ختم کرنی ہیں۔ ان خیالات کا اظہا رانہوں نے اتوار کو کراچی مقامی آڈیٹوریم میں نیشنل ڈائیلاگ آن ری امیجنگ کے عنوان سے منعقدہ طویل مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج ہر شخص سوال کررہا ہے کہ مسائل کا حل کیسے نکلے گا، مجھے معیشت کا تو نہیں معلوم لیکن سیاست کا دیوالیہ نکل چکا ہے،
یہ جو کچھ ہورہا ہے صرف اس حکومت یا پچھلی حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فیصلوں کے تسلسل آئین شکنی کا نتیجہ ہے۔آج کا نوجوان مایوس ہے اور یہ سب سے خطرناک بات ہے، ہم معیشت کو مل کر بہتر کرلیں گے مگر اس کے لیے سب کو آگے بڑھنا اور ساتھ چلنا ہوگا، میں بھی اس نظام کا حصہ رہا 35 سال خود کو بھی ملزم سمجھتا ہوں،
اس نہج پر پہنچے ہیں تو صفائی دینے کے بجائے قبول کریں سب اس میں شریک ہوں۔انہوں نے کہا کہ آئین اس سال 50 سال کا ہوجائے گا، کون سی شق ہے جو ہم نے نہ توڑی ہو، جتنا مفصل آئین پاکستان کا ہے کسی ملک کا نہیں، اس کے باوجود ہر وقت اس کی تشریح کرتے رہتے ہیں، ہر آئینی عہدے کا حلف بھی آئین میں تحریر ہے۔ اس موقع پر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس حلف کی پاسداری کی ؟
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کوئی قانون سازی عوام کو سہولت دینے کے لیے نہیں ہوتی، ان ناکامیوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا، سب سے پہلے قبول کرنا ہو گا کہ ہم نے غلطیاں کی ہیں، سب سے مشکل زندگی میں چلتے نظام میں تبدیلی لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل حل کرتے ہوئے اصلاحات لانا ہوں گی، طے شدہ بات کہ جس طرح چلارہے ہیں اس طرح ملک نہیں چلے گا، حل کی ابتدا آئین پر ملک کو چلانا ہے،
73 کے آئین کے تحت 10 الیکشن ہوئے سب چوری ہوئے اور ہم نے حکومتیں کر کے آئین کی نفی کردی۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے یہاں فہرستیں بنتی ہیں اور واضح کیا جاتا ہے کہ جو حکم مانے گا وہ پارلیمنٹ کا رکن ہوگا، ضمیر بیچ کر پارلیمان میں آنے والے کس طرح مسائل حل کریں گے، پارلیمان کو کرپٹ کردیا تو کس سے توقع کریں کہ مسائل حل کرے گا، ہم تو خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں، ملک کے مسائل حل کرنے والو کو پارلیمان جانے سے روکیں تو مسائل کیسے حل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کے احتساب کے لیے آمروں نے ادارہ بنایا مگر ان کے کسی ایک آدمی کا احتساب نہیں ہوا، نیب کی وجہ سے کوئی افسر کام کرنے کو تیار نہیں، جو دو ادارے نیب سے مستشنی ہیں ان کے ہی ریٹائرڈ لوگوں کو قومی احتساب بیورو کا سربراہ لگایا جاتا ہے۔شاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کیا کہ ہر رکن پارلیمان بتائے اس خرچہ کہاں سے پورا ہوتا ہے، جب سیاست دان خود ٹیکس ادا نہیں کرتے تو وہ دوسروں پر ٹیکس نافذ کرنے کی ہمت کیسے کرسکتے ہیں جبکہ ہر شناختی کارڈ کا حامل پوٹینشل ٹیکس گزار ہے،
ملک میں صرف نوکری پیشہ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں اور کوئی نہیں کرتا۔سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ملک کو بہتر کرنے کے لیے کوئی معجزہ نہیں ہوگا بلکہ ہمیں فیصلے کرنے ہوں گے اور سب سے پہلا فیصلہ آئین کی پاسداری، ٹیکس ادائیگی کا ہونا چاہیے، اس کے بعد پانی کی قلت سمیت دیگر اہم مسائل پر بھی غور کرنا چاہیے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اداروں کے سربراہان کی بھی ذمہ داری ہے کہ آئین کی پاسداری کرائیں، ہم سود کی ادائیگیوں کیلئے قرضے لیتے ہیں، صوبوں میں بھی احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہاکہ ملکی سیاست پر فوج ، عدلیہ اور میڈیا کے لوگ اثر انداز ہوتے ہیں ، اب ہمیں صفائی دینے کے بجائے قبول کرنا ہوگا کہ خرابی کے ہم سب ذمہ وار ہیں ،آئین کی کونسی شق ہے جو نہیں توڑی گئی ،پاکستان کا آئین مکمل ہے مگر پھر بھی تشریح کرتے رھتے ہیں۔ ہر آئینی عہدے کا حلف بھی الگ الگ موجود ہے ،اس فورم سے کسی کی تعریف کرنی ہے نہ تنقید کرنی ہے ،ملک کا صدر مجھے رات کی تاریکی میں کہتا ہے اپنا استعفی مجھے دیدو ، فوج کا سربراہ کہتا ہے پارٹی بدل لو اور انٹیلیجنس ادارے کا سربراہ کہتا ہے الیکشن نہیں جیتو گے اور ہم نے اس ملک میں سب دیکھا۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مصطفی نواز کھو کھر اور میں نے سوچا کہ حکومتیں چلانے کے طریقوں کے مطابق عوام کو لے کر نہیں چل پارہے ۔60 فیصد لوگوں کی آمدن 34 ہزار سے کم بلوچستان میں یہ تناسب 70 فیصد ہے ۔غربت کے خاتمے کے لیے عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہے ۔عقل کل نہیں سمجھتے خود کو لیکن تجاویز دینے کی کوشش کررہے ہیں ،ایک قوم بننا ضروری ہے میرے دادا سندھ یا کراچی نہیں پاکستان ہجرت کرکے آئے ۔امکانات کم ہونے کی وجہ سے لوگ تعصب اور لسانیت کی جانب جاتے ہیں ۔اپنا حق مانگنے سے قبل اپنے سے کمزور کے حق کی بات کرنا ہوگی۔ہمیں غریب طبقہ کے لیے مواقع اور امکانات بڑھانا ہوں گے ۔
ہر پاکستانی کے لیے نوکریاں مہیا کرنا ہوں گی ۔پاکستان میں سالانہ 55 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہم کہتے ہیں ہر بچے کو تعلیم اور صحت کی سہولت ملے ،بنگلہ دیش اور بھارت میں ابادی کی شرح کم ہے ،اسلامی ملکوں میں بھی ابادی کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ابادی میں اضافہ دستیاب وسائل کے مقابلے میں بہت زیادہ ۔فیملی پلاننگ پاکستان میں بھی ضروری ہے ۔اگر بنگلہ دیش جتنی ابادی کی شرح ہوتی تو جی ڈی پی 10 فیصد زیادہ ہوتی ۔ابادی کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے کم از کم بنگلہ دیش اور مسلم دنیا کے برابر ابادی کی شرح نمو لانا ہوگی ۔اسکول ایجوکیشن بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔44 فیصد بچے میٹرک میں داخلہ لیتے ہیں بھارت میں یہ شرح 84 فیصد ہے ۔
تعلیم کے نظام پر دو ہزار ارب روپے سالانہ خرچ ہورہے ہیں ،25 فیصد بچے صوبائی حکومت کے ایک ہزار ارب روپے کے خرچ سے اسکول جارہے ہیں ،نصف بچے تعلیم سے محروم رہیں تو ملک کیسے ترقی کرے گا ،حکومتیں تعلیم کا بجٹ وائوچرز کی شکل میں بچوں کو دیں تو فی بچہ 50 ہزار روپے ملیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ابادی کنٹرول اور تعلیم عام کرنے کی بات کریں تو صنفی توازن لانا بھی ضروری ہے ۔خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرتا ترقی کے لیے ضروری ہے ۔ہم پچاس فیصد ابادی میں حصہ رکھنے والی خواتین کی ابادی کو نظر انداز کرکے ترقی نہیں کرسکتے۔سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے اگر عدلیہ اور فوج اپنا کام کرے تو سیاست میں میچورٹی آسکتی ہے۔
عدلیہ آئین کے حساب سے نہیں اپنی منشا کیحساب سے کام کرتی ہے، کبھی آئین کی پاسداربن جاتی ہے، کبھی ڈاکٹرائن اور کبھی ججز ہم خیال ہو جاتے ہیں۔حکومت کا کام پولیس اسٹیشن اور کورٹ چلانا ہے پیٹرول پمپس چلانا نہیں۔ بجٹ خسارے سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے شاہی اخراجات کم کرنے ہونگے۔پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ملک میں معاشی بحران ہے، ہم سری لنکا نہیں ہیں، ملک ڈیفالٹ ہوا تو یہاں لوگ آگ لگائیں گے، یہاں سب کے پاس مسلح جھتے ہیں، ہمیں ملک سے نفرتیں ختم کرنی ہیں۔جو بات عوام چاہتے ہیں سیاستدانوں نے وہ بات کرنا چھوڑ دی ۔ملک کے عوام چاہتے ہیں کہ بتایا جائے اس کو چلانا کس طرح ہے ۔پارلیمان کے زریعے یا بند کمروں میں بیٹھ کر جس سے اس مقام تک پہنچے ۔
بھارت بنگلہ دیش ترقی کررہا ہے چین ایک روشن مثال ہے جس نے کروڑوں۔ لوگوں کو غربت سے نجات دی۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 8 سے 28 تک آئین کی بنیاد ہے۔ریاست نے جو وعدے عوام سے کیے وہ اپنے کمزور ترین مقام پر ہے،مختلف اکائیوں کا آپس میں تعلق ختم ہوتا جارہا ہے ۔ ملک کی معیشت کے ساتھ سیاست کا بھی دیوالیہ ہوچکا ہے ۔ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہوئے تو عمرانی معاہدہ برقرار رکھنا مشکل ہوگا ۔یہ نقصان پہلے بھی اٹھا چکے ہیں ۔2018 میں متفقہ سیاسی جماعتوں کے قانون کو ایک جماعت نے متنازع بنادیا ۔اسلامی نظریاتی کونسل کی منظوری سے یہ قانون بنا ۔آج سیکڑوں خواجہ سرا اس گفتگو کے بعد موت کا نشانہ بنے ۔ملک کو کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں اور کہاں پہنچایا، غلطیوں کا ادراک کرنا ہوگا ۔
اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر کھل کر بات کرنا ہوگی ۔ملک کو سیکیوریٹی اسٹیٹ کی طرح نہیں چلایا جاسکتا ۔مذہب کے مقام کو بھی مقدم رکھنا ہوگا ۔علامہ اقبال کی سوچ او فکر زیادہ تر آج عملی شکل نہیں رکھتی۔آج ہمیں نئے سرے سے معاشرے کے اندر مزہب کی کیا تعریف ہے مذہب کی یہ تعریف ہمیں لڑا رہی ہے ۔سعودی عرب میں بھی 18 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی پر پابندی ہے ،گھریلو تشدد پر دنیا کا کیسے سامنا کریں لیکن اس پر بات کرنے کو تیار نہیں ،ہماری سوچ اور حقیقت ہے کہ خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔میر ہمایوں کرد نے کہا کہ پاکستان کا نیا تصور سچ کے بغیر مکمل نہیں ہوگا ۔ماضی و تاریخ سیاہ ہے جو میرٹ کی بات کرے اسے غدار قرار دیا جاتا ہے ۔پاکستان کو کسی ادارے یا سیاسی جماعتوں کو کاروباری شخصیات نے کبھی اوون نہیں کیا ۔
پاکستان سے قبل بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی ۔قیام پاکستان کے بعد 1948 میں قائد اعظم کو کشادہ دلی کے ساتھ بلوچستان کی شمولیت دی ۔1940 کی قرار داد پر بلوچستان کے حوالے سے عمل نہ ہوسکا ۔سینڈک کے معدنی وسائل اور گوادر کے مقامی ماہی گیروں پر بلوچستان کے تحفظات ہیں ۔بلوچستان کے عوام اپنا آئینی حق اور عزت نفس کا احترام مانگ رہے ہیں۔حق کے اس مطالبے کو غداری سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔مرکزی حکومت بنتی ہے تو وہاں عوام کے حقیقی نمائندوں کو شامل نہیں کیا جاتا ۔پاکستان اور بلوچستان کے ساتھ مخلص ہوں گو آکر دیکھیں ہم کس حالت میں رہ رہے ہیں۔سزا جزا کی تصور کو عملی شکل دیئے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا ،پاکستان کو ان حالات تک پہنچانے والے اور عوام کے حقوق غصب کرنے والوں کا احتساب کرنا ضروری ہے ۔
سینئر سیاستدان لشکری رئیسانی نے کہا کہ افغانستان کے مرکزی بینک کا سربراہ چار جماعت پڑھے ہیں ،افغانستان کرنسی میں ڈالر ڈھائی روپے کا ہے ،بات اپنی سرزمین اور نسلوں سے کمٹ منٹ کی ہے۔پاکستان کی بہتری کی تجاویز پر عمل کون کرے گا ،کس کے پاس اختیار ہے پاکستان کو بہتر کرنے کا ،پارلیمان مفلوج ہے ادارے پاور شیئرنگ میں لگے ہیں،طے کرنا ہوگا کہ اختیار کس کے پاس ہے ،75سال سے بھارت مخالف جذبات ہم پر ٹھونس دیئے گئے۔انگریز کے بنایے قوانین بھارت میں کیوں کامیاب ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بلوچستان اور پختون خوا کے بارے میں فرسودہ تصورات کو بدلنا ہوگا ۔فرنٹ لائن اسٹیٹ کو ہمیشہ عدم استحکام سے دوچار رکھا جاتا ہے ۔فرنٹ لائن اسٹیٹ مورچہ بند رہے گا تو ہم اسی کیفیت میں رہیں گے ۔اس حالت میں خالق کے مفادات کے تحت کام کیا جاتا ہے ۔
پاکستان پر تسلط قائم رکھنے والی قومیں عوام کو سہولت دینے کے بجائے اسلحہ دیتی ہیں ۔ایٹمی قوت بننے کے بعد قیادت کو ایک طریقہ کار کے تحت ختم کیا ۔اس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو سوچنے سمجھنے طریقے سے معاشی تباہ حالی کی طرف لانا تھا ،کسی ایٹمی ملک کی خلاف جارحیت نہیں کی جاتی ،ہم سوچے سمجھے طریقے کے تحت معاشی دیوالیہ کی طرف لائے گئے ۔لشکری رئیسانی نے کہا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا اکنامک گیم ختم ہونے جارہا ہے ،بھارت سے ڈرانے والے پاکستان کے معاشی دیوالیہ کا حصہ ہیں ،یہ عناصر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا سودا کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ،کسی سیاسی جماعت کے پاس معاشی ٹیم نہیں ہے ،ایٹمی قوت کو معاشی تباہی کی جانب لے جایا جارہا ہے تاکہ ایک خاص وقت پر ایٹمی صلاحیت سے محروم کردیا جائے ۔ سیاسی قیادت عوام سے جامعات سے کسانوں مزدوروں سے نہیں نکلے گی ہم بحران کی جانب ہی بڑھتے رہیں گے۔
خواجہ محمد ہوتی نے کہا کہ ملک میں خاندانی حکومت ہے ،وراثت کی سیاست پاکستان میں مضبوط ہے بھارت سری لنکا میں تسلیم نہیں کررہے ،خان صاحب کے تین سال بھی مکمل تباہی کے سال تھے ،عمران خان ڈرٹء ہیری کی بات کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں ،عمران خان نے ہم لوگوں پر ڈرٹی ہیری چھوڑا جس نے ہمیں سزائیں کاٹنے پر مجبور کیا ،ہم وہ قومیت ہیں جنہیں استعمال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے ساتھ گزارا کریں ،کے پی کے کو 2010 میں اس کی شناخت ملی ،اس سے قبل نارتھ ویسٹ فرنٹیئر کہا جاتا رہا ،83 سے کے پی کے کے ساتھ ظلم جاری رہا ۔ہمیں بطور فرنٹ لائن استعمال کیا گیا ،ہمارے لوگوں کو اسی ڈرٹی لیری نے اغوا کیا جسے خان صاحب نے مسلط کیا ،فواد حسن فواد شاہد خاقان نے اس جرم کی سزا کاٹی جو کیا نہیں اور نہ ثابت ہوا ،سزا و جزا کے نظام کی بہتری کی بغیر پاکستان کیسے ترقی کرے گا ،اسمبلی تو 2018 میں بھی آزاد نہ تھی،سینیٹ میں لگائے گئے کیمرے مصطفی نواز کھو کھر نے پکڑے ۔عمران خان سیاست کا درس نہ دیں دونوں جانب گند ہے۔