لاہور(این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ہم روسی صدر سے سستا تیل اور گندم لینے کی بات کر کے آئے جبکہ اس وقت کے آرمی چیف نے سکیورٹی سے متعلق ایک سیمینار میں امریکہ کو خوش کرنے کے لئے روس، یوکرین جنگ پر روس کی مذمت کر دی،پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا،اس میں نقصان پاکستانی عوام کا ہوا،
ہمیں سب سے بنانی چاہیے ہمیں کسی کی لڑائی میں نہیں پڑنا چاہیے،ہم یہی نہیں سمجھ سکے کہ پاکستان کی ریاست ایک بڑا خواب تھا، اس نے مدینہ کی ریاست کی طرح اصولوں پر کھڑا ہونا تھا، جہاں پر قانون کی حکمرانی تھی، آج مسلمان دنیا کے کیا حالات ہیں،قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں ہم اور مغربی ریاستیں کہا ں ہیں۔ ان یالات کا اظہار انہوں نے تحریک انصاف کے اہل دانش اور طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔عمران خان نے کہا کہ میں کوئی دینی سکالر نہیں،صرف تاریخ کا ایک طالبعلم ہوں،اسلام کی بھی تاریخ پڑھی ہے، مغرب کی دنیا کو اندر سے دیکھنے کا موقع ملا۔انٹیلیکچول، علماء اور سکالرز کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا تھا، باقی ممالک اور وجہ سے بنے تھے قومیت پر بنے، جب عثمانیہ سلطنت ختم ہوئی تو ترکی کو نیشنل ازم کے نام پر کمال اترک نے کھڑا کیا تھا، یہ قومیت تھی، ہمار املک اسلام اور آئیڈیالوجی کے نام پر بنا ہے۔ قرارداد مقاصد میں پاکستان کا روڈ میپ دیا گیا ہے کہ یہ اسلامی فلاحی ریاست ہو گی،اس کو مدینہ کی ریاست کی طرز پر بنایا جانا تھا اور یہی اس کی بنیاد ہونا تھی، ہم نے اس کے بنیادی اصول تھا اس پر چلنا تھا، ہماری ریاست بننا کیا تھی اور اور ہم بن کیا گئے ہیں۔ آج دنیا سے موازنہ کریں، کون سے ملک آگے نکل گئے ہیں کون سے پیچھے رہ گئے ہیں، کون سے ترقی یافتہ ممالک ہیں اور کون سے ترقی پذیر ممالک ہیں،
آج جو مسلمان ممالک نہیں ہیں ہمارے لوگ وہاں جانا چاہتے ہیں اس کی وجہ سے وہاں قانون و انصاف کی حکمرانی اور خوشحالی کا ہونا ہے، جو انسانی معاشرہ نبی کریم ؐ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلے گا وہ اوپر چلے جائے گا اورضروری نہیں وہ مسلمان ہوں بلکہ وہ انسان ہوں، پہلے یورپ اوپر گیا، پھر امریکہ جارہاہے، چین اوپر جارہا ہے، اس کی گہرائی میں جائیں تو یہ ان اصولوں پر چل رہے ہیں
جو ہمارے نبی نے ریاست کی مدینہ میں طے کئے تھے۔ نبی کریم ؐ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب لے کر آئے تھے، اتنے تھوڑے وقت میں کہیں اور تبدیلی نہیں آئی، کہا جاتا ہے کہ چنگیز کی منگولین فوجوں نے بھی ایسا کیا، لیکن اس میں خون کے دریا بہائے گا، ہمارے نبی کریمؐ کے دور میں دس سالوں میں انقلاب آ چکا ہے، سارا عرب ان کے ساتھ آ گیا تھا، اس وقت جو جنگیں ہوئیں اس میں صرف 12سے13 لوگ مارے گئے تھے،
یہ فکری انقلاب آیا تھا۔انہوں نے کہاکہ لا الہ اللہ آزادی کا دعویٰ ہے، آزاد انسانوں کی پروازوں اوپر ہوتی ہے، غلاموں کی پرواز نہیں ہوتی۔ مدینہ کی ریاست نے انسانوں کو ذہنی طو رپر آزاد کیا، ریاست بنائی اور سب سے پہلا اصول عدل و انصاف تھا، قرآن پاک میں بھی بار بار انصاف کا کہا گیا ہے۔انسان او رجانوروں کے معاشرے میں سب سے بڑا فرق انصاف کاہوتا ہے، جانوروں کے معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہوتا ہے،
جب آپ انصاف قائم کرتے ہیں لوگوں کو آزاد کر دیتے ہیں،ایک معاشرہ جب اپنے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی پرواز اوپر کر دیتا ہے، کبھی بھی غلام انسانوں نے آج تک بڑے کام نہیں کئے،جسمانی غلامی سے ذہنی غلامی سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ انگریزی سیکھنے کی کوئی اور وجہ ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دوسرے کلچر کا غلام بن جانا یہ بڑی خطرناک چیز ہے، غلام اچھے غلام بنتے ہیں،
ان کی اصل سوچ ختم ہو جاتی ہے، انوویشن ختم ہو جاتی ہے وہ صرف باہر سے علم لیتے ہیں اپنا علم پیدا نہیں کرتے۔ ایک وقت تھا جب مسلمانوں نے دنیا میں سائنس میں لیڈ کیا تھا، اس وقت علم سیکھنے کو ایک ڈیوٹی بنا دیا گیا تھا، علم سیکھنے کو عبادت کا درجہ دیا گیا۔انہوں نے کہاکہ ہم ابھی تک ذہنی غلامی سے نہیں نکل سکے، جوانگریزی بہتر بول لیتا ہے اسے ایک بڑا اسٹیٹس دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہی نہیں سمجھ سکے کہ پاکستان کی ریاست ایک بڑا خواب تھا،
اس نے مدینہ کی ریاست کی طرح اصولوں پر کھڑا ہونا تھا، جہاں پر قانون کی حکمرانی تھی، آج مسلمان دنیا کے کیا حالات ہیں،قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں ہم اور مغربی ریاستیں کہا ں ہیں، ٹاپ پر سوئٹرز لینڈ ہے اور سب سے کم نائیجریا ہے جو تیل کے ذخیرے پر بیٹھا ہوا ہے، سوئٹرزلینڈ میں وہاں کوئی وسائل نہیں لیکن وہ خوشحال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تماشے ہو رہے ہیں، پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے، انسانی حقوق کی کوئی حفاظت نہیں ہے، طاقتور جو مرضی کر لے،
چوری کر کے این آر او لے لیں، قبضہ گروپ پھر رہے ہیں، کمزور کی حفاظت کے لئے جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ ہے ہی نہیں، کبھی یورپ میں سنا ہے وہاں قبضہ ہوا ہے۔ جو ملک کے وسائل کو چوری کرتے ہیں کرپشن کرتے ہیں کبھی سنا ہے کہ مغربی ملک میں بڑے بڑے چوروں کو این آرا و دیا گیا ہو۔ سنگا پور کو آج ماڈل سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کی اور ہماری آمدن ایک جیسی تھی،آج اس کی پر کیپٹا آمدن 60ہزار ڈالر ہے اور ہماری 2ہزار ڈالر پر پہنچی ہے اور شاید اب مزید کم ہو گئی ہے۔
آٹھ ماہ مین ڈالر 100روپے اوپر گیا ہے۔ سنگا پور نے سب سے پہلے کرپشن پر ہاتھ ڈالا، انہوں نے چھوٹے چوڑوں کو نہیں پکڑا، چھوٹی چوری سے ملک تباہ نہیں ہوتے، جب وزیر اعظم وزراء،صاحب اقتدر اورصاحب حیثیت چوری کرتے ہیں تو تب ملک تباہ ہوتے ہیں، چین نے تقریبا ساڑھے چار سو وزیروں کو سزائیں دی ہیں۔جب تک ملک میں انصاف قائم نہیں کرتا خوشحالی نہیں آتی، قانون کی حکمرانی کا نام ہی جمہوریت ہے جو قانون کے سامنے سب کو ایک برابر کر دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ
آئین کہتا ہے نوے روز میں انتخابات کرائیں، یہ سارے مل کر کہہ رہے ہیں نہیں کرائیں گے، اس کے لئے فنڈز نہیں ہیں یہ بھی آئین کی خلاف ورزی ہے۔آج ہماری آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی نہیں، ہم کبھی کسی سپر پاور کی غلامی کرتے ہیں اور کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں،جب ہم آزاد خارجہ پالیسی کا کہتے ہیں تو وہ پالیسی ہوتی ہے جو اپنے لوگوں کے مفادات کے لئے بنتی ہے، ملک کے فائدے کے لئے بنائی جاتی ہے جسے قومی مفاد کہتے ہیں۔ ہم نے دوسروں کی خارجہ پالیسی کے مفاد میں اپنے ملک کو قربان کیا،
تھوڑے سے ڈالرز کیلئے دہشتگردی کی جنگ میں حصہ لیا اور اپنے 80ہزار لوگ مروا دئیے، وہ بھی صرف امریکہ کو خوش کرنے کے لئے، امریکہ بھی خوش ہوا نہیں،اس سے صرف چھوٹی سی ایلیٹ اس کا فائدہ ہو گیا، قبائلی علاقے کو اجاڑ کر رکھ دیا ِ، ہمارے ہاں خارجہ پالیسی ہمیشہ کسی اور کے مفاد کے تحفظ کے لئے بنتی رہی۔ عمران خان نے کہا کہ ہم نے روس سے اچھے تعلقات کی کوشش کی، ہمیں روس سے سستی گندم چاہیے تھی کیونکہ 20لاکھ ٹن گندم کی کمی کا سامنا تھا، اب جو حالات ہیں گندم کی پیداوار مزید کم ہو گئی ہے۔
ہم روس سے طے کر کے آ گئے تھے، صدر پیوٹن سے طے کر لیا تھاکہ جس طرح وہ بھارت کو سستا تیل دے رہے ہیں ہمیں بھی دیں، اس دوران روس اور یوکرین کی جنگ ہو گئی،ہم واپس آئے تو کہا گیا کہ روس کی مذمت کریں، میں نے کہا کہ بھارت جو امریکہ کا سٹریٹجک اتحادی ہے وہ تو مذمت نہیں کر رہا۔ہمارے اس وقت کے آرمی چیف گریڈ 22کے آفیسر نے سکیورٹی سے متعلق ایک سیمینار میں روس کی مذمت کر دی، ہم اس سے سستا تیل لے رہے ہیں اس نے امریکہ کو خوش کرنے کے لئے مذمت کر دی۔اس کا نتیجہ کیا ہوا، بھارت کی مہنگائی جوساڑھے سات فیصد تھی ساڑھے پانچ فیصد پر آ گئی
اورپاکستان کی مہنگائی جوبارہ فیصد تھی جو تیس فیصد پر چلی گئی کیونکہ ہم مہنگا تیل لے رہے تھے،اس میں نقصان پاکستانی عوام کا ہوا۔ میں یہ سب کچھ اپنی ذات کے لئے نہیں لوگوں کے لئے کر رہا تھا۔ ہمیں سب سے بنانی چاہیے ہم کسی کی لڑائی میں کیوں پڑیں یہ آزادانہ خارجہ پالیسی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ تاریخ میں کبھی بھی ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر اس سطح تک نہیں گرے جو آج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے کمزور طبقے کی حفاظت کرے، وہ جمہوریت ہو جس میں انسانیت کی قدر ہو، جب تک عدل و انصاف معاشرے میں رائج نہیں کرتے ایک فلاحی ریاست انسانیت کا نظام نہیں بناتے
معاشرے میں اللہ کی برکت نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پوری کوشش سے ہیلتھ کارڈ لے کر آئے جس میں لوگوں کو دس لاکھ روپے تک علاج کی انشورنس ملی، اس اقدام کی دنیا میں تعریف ہوئی، اس حکومت نے اسے بھی رول بیک کر دیا ہے۔احساس پروگرام کو دنیا نے سراہا۔انہوں نے کہاکہ پہلے آپ فلاحی ریاست بناتے اور عدل و انصاف کرتے ہیں تو پھر خوشحالی آتی ہے، ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ پیسے آئیں گے فلاحی ریاست بنے گی نہ پیسے آئے ہیں نہ فلاحی ریاست بنی ہے۔انہوں نے کہا کہ میری حقیقی آزادی کی تحریک کی بنیاد ہے سب کو مل کر پاکستان میں قانون و انصاف کے نظام کے لئے لڑنا چاہیے،جب تک طاقتور طبقات قانون کے نیچے نہیں آتے،
قانون طاقتور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کھڑا کرتا پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔علاوہ ازیں تحریک انصاف کی خواتین رہنماؤں اور متحرک کارکنان نے پارٹی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کر کے جیل بھرو تحریک کا حصہ بنانے اور رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں دینے کی اجازت دینے کی استدعا کر دی۔خواتین رہنماؤں و کارکنان کے بڑے وفد نے زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی اور جیل بھرو تحریک میں صف اول میں کردار ادا کرنے اور ملک بھر سے گرفتاریاں دینے کا حلف اٹھایا۔ خواتین نے کہا کہ قوم کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں حقیقی آزادی کی تحریک میں اپنے قائد عمران خان کے شانہ بشانہ ہیں،
خواتین قائدین و کارکنان نے25 مئی کے اسلام آباد لانگ مارچ میں بدترین ریاستی جبر کا پوری ہمت سے سامنا کیا، خواتین قائدین و کارکنان ہمیشہ کی طرح جیل بھرو تحریک میں بھی صف اول میں کردار ادا کرنا چاہیں گی۔ عمران خان نے خواتین قائدین و کارکنان کے جوش و جذبے کی تحسین کی اور کہا کہ پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، خواتین کارکنان نے سیاسی جدوجہد کے ہر مرحلے پر نہایت موثر کردار ادا کیا ہے، قومی سطح پر ذہن سازی اور سیاسی مکالمے میں خواتین کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے، خواتین کارکنان حقیقی آزادی کا پیغام گھر گھر لے کر جائیں اور قوم کو قانون کی بالادستی کیلئے تیار کریں۔