اسلام آباد (این این آئی)مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری ،چیرمین خواجہ سلمان صدیقی نے ملک میں جاری بد ترین ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر حکمرانوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ایماء پر کروڑوں عوام اور تاجروں پر اربوں روپے کے مزید ناجائز ٹیکسز لگائے گئے تو ملک بھر کے
تاجر 13فروری سے ملک بھر میں احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے جبکہ انہوں نے مقتدر حلقوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مطالبہ کیا ہے کہ وطن عزیز کو لوٹنے والے سیاست دانوں اور اشرافیہ کی بیرون ممالک میںموجو د قومی دولت کو واپس لانے کیلئے ایمنیسٹی دی جائے اور ریاست پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض لینے کیلئے بجائے ان سے قرض لیکر انہیں منافع دینا چاہئے اور کہا کہ صدر مملکت ، وزیر اعظم ، چیئرمین سینٹ ، اسپیکر قومی اسمبلی ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ، سینیٹرز ، ججز ، جرنیلوں ، بیوروکریٹس ،عوامی نمائندوں کی تنخواہیں فوری بند کی جائیں اور انہیں فراہم کی جانے والی مراعات کو آدھا کر دیا جائے ، غیر پیداواری اخراجات پر پابندی لگائی جائے اور ریاست اپنے 50فیصد اخراجات کم کرنے کا اعلان کرے ،لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم ملکی معاشی پالیسیاں بنائی جائیں ، معاشی بدحالی سے نکالنے کیلئے ان ڈائریکٹ سمیت دیگر ٹیکسز کے نافذ کے بجائے آمدن پر ٹیکس لگایا جائے جبکہ تاجر فکسڈ ٹیکسز دیکر معاشی خوشحالی کیلئے اپنا حصہ ڈالنے کو تیار ہیں، ایف بی آر کے بو سید ہ ڈھانچے کو ختم کرکے از سر نو ترتیب دیا جائے ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتہ کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ’’ بدترین ملکی معاشی صورتحال ، اسباب اور حل‘‘ کے عنوان سے منعقدہ پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔پریس کانفرنس میں ملک بھر سے تاجر نمائندوں نے بھرپور شرکت کی۔
مرکزی تنظیم تاجران پاکسستان کے چیئرمین خواجہ سلمان صدیقی ،شرجیل میر صدر پنجاب ،چیئرمین فیڈریشن آف رئیٹیلرز مسرت اعجاز خان ، رحیم آغا صدر بلوچستان ،صدرریسٹورنٹ ایسوسی ایشن شیخ وحید ، راجہ طفیل اخلاق عباسی صدر مری ،راجہ رفاقت ترجمان آزاد کشمیر ،چیئرمین پاکستان ٹریڈرز الائنس شیخ عبد السلیم ، صدر ریٹلرز ایسوی ایشن شیخ اویس ،
چوہدری طاہر چیرمین پاکستان بزنس فورم ، عبید عباسی ، سید عمران بخاری ، شیخ شکیل ، جہانگیر عباسی ، خواجہ خلیل سالار ، زاہد منان ، حاجی اعجاز احمد سیال ،خورشید قریشی ،جہانگیر عباسی و دیگر موجود تھے۔محمد کاشف چوہدری نے کہا کہ دینا کی پانچویں بڑی ایٹمی ریاست پاکستان کی معیشت کابحران آئے روز مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے ، روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ جبکہ ڈالر کی اڑان جاری ہے
اور روپے کی قدر گرنے سے قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،وزیر خزانہ اسحاق ڈار جنہیں معیشت کا ارسطو اور ڈالر کو کنٹرول کرنے کیلئے لایا گیا کہ وہ آئیں گے اور ڈالر کی اڑان رک جائیگی ایسا بلکل نہیں ہوا ڈالر پر مصنوعی کیپ لگانے سے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمتوں میں واضح فرق پیدا ہوا کیپ ہٹانے کے مطالبے کے باوجود وہ بضد رہے اور ان کی ضد کی وجہ سے ڈالر تاریخی سطح پر پہنچا
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کو خود مختار ی دیکر براست آئی ایم ایف کی غلامی میں دیا گیا اور اب اسٹیٹ بینک نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں اور کہا کہ بندر گاہوں پر آٹھ ہزار سے زائد کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں اور ایل سیز نہیں کھل رہی اور اب تو98فیصد شپنگ کمپنیاںجو غیر ملکی ہیں انہوںنے پاکستان میں آپریشن بند کر نے کی دھمکی دیدی ہے۔انہوں نے حکومت اور اشرافیہ سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اشیاء خورونوش ، پیٹرولیم مصنوعات ، مشینری ،
زرعی ادویات سمیت دیگر ضروری چیزیں درآمد کی جاتی ہے اور ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے صنعتیں بندہونا شروع ہو گئی ہیں اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔57فیصد ٹیکس وصولیاں صنعتوں سے حاصل ہوتی ہیں جب صنعتیں بند ہو جائیں گی تو ٹیکس وصولیاں بھی نہیں ہونگی یہ صرف صنعتوں کا رونا نہیں بلکہ ناقص پالیسیوں کیو جہ سے ہر شعبہ تباہ حال ہو گیا ہے زرعی ملک میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دو وقت کی روٹی کیلئے ہمیں آٹا حاصل کرنے کیلئے لائنوں میں لگنا پڑتا ہے
اور یہ ملک کے کسی دو افتا علاقے کی بات نہیں بلکہ شہر اقتدار میں ایسا ہو رہا ہے، عام تاجر دوکانیں بند کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور حکمران اقتدار کی رسہ کشی ، اقتدار کیلئے بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے سیاست دانوں نے گالی کلچر کو اپنا لیا یہ کسی ایک جماعت کی بات نہیں ہر سیاسی جماعت اسی پر کار بند ہے اور ملک کے مسائل کو کوئی سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ہے۔غیر سنجیدہ رویوں اور اخلاقی حقوق کی پامالی نے سسٹم کو تبادہ کر دیا ہے اور صرف ایک ہی حل حکمرانوں کے پاس رہ گیا ہے کہ
قرضوں کی بھیک پر ملک کو چلایا جائے آی ایم ایف جائزہ مشن پاکستان میں موجود ہے اور دو ہی چیزیں ہیں یا تو ان کے ساتھ ڈیل ہو گی یا پھر ڈیفالٹ کا اعلان کرنا باقی رہ جائیگااور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو سیاست دان ، حکمران اور اشرافیہ تو بیرون ملک بھاگ جائیں گے۔حکمرانوں کو خوش فہمی تھی کہ دوست ممالک سے امداد مل جائیگی لیکن انہوںنے بھی اسے آئی ایم ایف سے مشروط کر دیا ہے۔آئی ایم ایف آخر کیوں ، پانامہ اور پنڈورہ لیکس میں آنے والے سیاست دانوں اور اشرافیہ کے پیسے کی بات نہیں کرتے کہ
ان کا وہ پیسہ کدھر ہے آخر کیوں آئی ایف ایم اور حکمران عوام کا خون نچوڑنے کی پالیسیوں کی طرف راغب رہتا ہے کیوں حکمرانوں سے نہیں پوچھا جاتا؟انہوں نے کہا کہ ملک گیر سطح پر سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کے بجائے تمام سٹیک ہولڈر ، حکمرانوں ، سیاست دانوں ، اپویشن ، عدلیہ ، اداروں ، میڈیا ، صنعت کاروں ، تاجروں کو ایک میز پر بیٹھنا ہوگا تاکہ چارٹرڈ آف اکنامی تیار کریںاور معاشی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا جائے اقتصادی اور معاشی منصوبے کم از کم بیس سال کیلئے تیار کیے جانے چاہئے اور ان منصوبوں کو حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود جاری رکھا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے حوالے سے تاریخی فیصلہ دیا اور حکومت نے بھی سود سے پاک معیشت کی بات کی لیکن عملی اقدامات ابھی شروع نہیں ہوئے ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو سود سے پاک معیشت بنایا جائے تو ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ضرورت نہیں رہے گی ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو کوئی ملاوٹ کرنے والا ہے ، ناجائر منافع خور ہے ، ذخیرہ کرنے والا ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اس موقع پر انہوںنے سانحہ پشاور کی پر زور مذمت کی۔ پریس کانفرنس سے ، پنجاب کے صدر شرجیل میر سمیت دیگر راھنماوں نے بھی خطاب کیا اور موجودہ مہنگائی کے اسباب ، سدباب پر تفصیلی روشنی ڈالی۔