کیف ٗ ماسکو (این این آئی)یوکرین کے صدر ولادی میرزیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کی طرف سے یوکرین کے توانائی سے متعلق تنصیبات پر حملوں نے یوکرینی پاور گرڈ کو میدان جنگ بنا دیا ہے۔ جس کے بعد حیران کن حد تک یوکرینی شہریوں کے ایک یورپ کی طرف نیا انخلا شروع ہو گیا ہے۔صدر زیلنسکی کے مطابق روسی قیادت نے یوکرین کے توانائی کے نظام کو تباہ کرنے کے لیے اسے میدان جنگ بنانے کے احکامات دیے ہیں۔
ان روسی کارروائیوں کے اثرات ہمارے لیے اور یورپ کے تمام لوگوں کے لیے سخت خطرناک ہیں۔صدر زیلنسکی نے یورپی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ روس کی ان کارروائیوں کے بعد یوکرینی شہریوں کی یورپ کی طرف نقل مکانی کی ایک نئی لہر کا آغاز ہو گیا ہے۔واضح رہے یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے یوکرین کے طول و عرض میں روسی میزائلوں سے کیے گئے حملوں کے نتیجے میں اب تک یوکرین کے 30 فیصد سے زیادہ توانائی مراکز اور بجلی گھر تباہ ہو چکے۔دوسری جانب روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے اپنے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن کے ساتھ فون پر بات چیت کی، دونوں نے بین الاقوامی سلامتی اور یوکرین کے مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔پینٹاگون نے بتایا کہ “آسٹن اور شوئیگو نے یوکرین میں جنگ کے تناظر میں مواصلات کے ذرائع کو کھلے رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
“یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے دونوں وزرائے دفاع کے درمیان یہ دوسری بات چیت ہے۔روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ بات چیت کے دوران یوکرین سمیت بین الاقوامی سلامتی سے متعلق کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔پینٹاگون نے یہ بھی کہا کہ آسٹن نے اپنے یوکرائنی ہم منصب اولیکسی ریزنیکوف کے ساتھ ایک اور فون کال میں یوکرین کی طاقت بڑھانے اور اس کی دفاع کی صلاحیت کے تحفظ کیلئے بین الاقوامی برادری کی مسلسل حمایت پر زور دیا۔
آسٹن نے روس کی طرف سے شروع فوجی آپریشن کا مقابلہ کرنے کیلئے یوکرین کی صلاحیت بڑھانے کے لیے امریکہ کے عزم کی تجدید کی۔تنازع کے آغاز کے بعد سے شوئیگو اور آسٹن کے درمیان آخری بات چیت 13 مئی کو ہوئی تھی۔ 19 مئی کو روسی چیف آف سٹاف ویلری گیراسیموف اور ان کے امریکی ہم منصب مارک ملی کے درمیان فون پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔
ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات 24 فروری کو یوکرین میں روسی حملے کے آغاز کے بعد سے مسلسل خراب ہوتے رہے ہیں۔ انتخابی مداخلت، جاسوسی اور سفارت کاروں کی بے دخلی کے الزامات کے درمیان امریکہ روس تعلقات حالیہ برسوں میں اپنی نچلی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔روس یوکرین کے لیے بڑی امریکی فوجی اور مالی امداد پر تنقید کرتا آرہا ہے اور وہ الزام لگا رہا ہے کہ امریکہ تنازع کو طول دینا چاہتا ہے۔
وسط نومبر میں انڈونیشیا میں جی 20 سربراہی اجلاس سے کچھ روز قبل روسی صدر ولادیمیر پوتن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہیں جو بائیڈن کے ساتھ بات چیت کی کوئی “ضرورت” نظر نہیں آتی۔دوسری طرف امریکی صدر نے دونوں کی ملاقات سے انکار نہیں کیا اور 6 اکتوبر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ یہ ابھی واضح نہیں ہے۔دریں اثنا یوکرین کے صدر دفتر کے ڈائریکٹر کے مشیر میخائیلو پولوڈیک نے جمعہ کو روس کے ویٹو کو واپس لینے اور روسی صدر پوتین کے جی 20 اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے کا مطالبہ کردیا۔انہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ جو ملک اپنے پڑوسیوں پر ٹینکوں سے حملہ کرتا ہے، نسل کشی کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی دھمکی دیتا ہے اسے اقوام متحدہ میں ویٹو کا حق نہیں ہونا چاہیے۔اہم انفراسٹرکچر پر میزائل حملوں کا حکم دینے والے شخص کو جی 20 کے رہنماں کے ساتھ ایک ہی میز پر بھی نہیں بیٹھنا چاہئے۔