اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے کے کیس میں پولیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان جمع کرانے سے روکتے ہوئے عمران خان کو دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دیدیا۔تفصیلات کے مطابق عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت 21 اگست کو اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا
جب کہ عدالت نے یکم ستمبر کو انہیں ضمانت دیتے ہوئے 12 ستمبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں بینچ نے عمران خان کی دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت عمران خان کے وکلا بیرسٹر سلمان صفدر اور ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون بھی روسٹرم پر آگئے۔دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پولیس نے مقدمے میں مزید نئی دفعات شامل کرلیں، دفعات شامل کرنے پر عدالت کے جج بھی بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یونیفارم پہننے والو کو دھمکیاں دی گئیں، اگر ہم ان کو عزت نہیں دیں گے تو کون دیگا، اگر ان سے غلطی بھی ہو جائے تو یہ عدالت ان کو عزت دے گی، اگر یہ عدالت ان کو عزت نہیں دے گی تو باہر بھی کوئی نہیں دے گا۔انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پولیس نے عمران خان کے خلاف چالان جمع کرایا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان مقدمے میں شامل تفتیش ہی نہیں ہو رہے، عمران خان تک پولیس کو رسائی نہیں دی جارہی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یونیفارم میں کھڑا پولیس اہلکار ریاست ہے، دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوا تو تفتیش میں شامل ہوئے بغیر آپ مقدمہ خارج کی درخواست لے آئے۔انہوں نے کہا کہ ایک قانون ہے، اس پر آپ نے عمل کرنا ہے، جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ بالکل ہمیں شامل تفتیش ہونا ہے،
ابھی ابتدائی مرحلہ ہے، عمران خان کے خلاف مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے۔وکیل نے عمران خان کے شامل تفتیش ہونے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہم شامل تفتیش ہوں گے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ تفتیشی جاتا ہے، اس کو اندر ہی نہیں جانے دیا جاتا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ
کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، اگر تفتیشی سے تعاون نہیں کیا جارہا تو آپ رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، عدالت امید کرتی ہے اگر غلط دفعہ لگی ہے تو عدالت کا آگاہ کریں گے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ تفتیش مکمل ہوئے بغیر یہ عدالت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی،
اگر تفتیشی کو عمران خان تک رسائی نہ ملی تو ہم اخراج مقدمہ کا کیس نہیں سنیں گے۔عمران خان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ تفتیش مکمل ہونے تک تفتیشی کو عمران خان کے خلاف تادیبی کارروائی سے روکا جائے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس کیس میں جے آئی ٹی بنی ہوئی ہے
جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس میں جے آئی ٹی کی کیا ضرورت ہے کہی پر حملہ تو نہیں ہوا، صرف تقریر ہی ہوئی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ عمران خان کی تقریر کے تانے بانے بہت پیچھے تک ہیں۔فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے عمران خان کے خلاف اخراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کو مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کردی۔