کراچی(این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس 13 مہینے ہیں، ہوسکتا ہے میرے پاس اتنا وقت نہ ہو،میں قسم کھا کر بتا رہا ہوں کہ اگر ہم سخت اقدامات نہ کرتے تو2 ماہ میں دیوالیہ ہو جاتے،پاکستان میں کوئی ٹیکس دینا نہیں چاہتا،ہر ملک سے پیسہ مانگ رہے ہیں، اس صورتِ حال پر بہت شرم آتی ہے،2 ماہ بعد بجلی کی قیمت کم ہوجائے گی حکومت نے مشکل وقت میں مشکل فیصلے کیے ،پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور پھر خلاف ورزی کی
،پاکستان نے کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا اور آئندہ بھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔جمعہ کو آئی بی اے میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاکہ میں اس طرح کام کرتا ہوں کہ میں زندگی بھر یہاں پر ہوں، پاکستان تو رہے گا نہ، اسی طرح کام کرنا ہے کہ اگلے پانچ سال کے لیے منصوبہ بندی کر کے جائیں اس کے بعد آنے والوں کی مرضی ہے، مجھے نہیں پتا کہ کتنے دن رہوں گا لیکن حکومت کی سوچ ہے کہ اگلے 6 سال تک رہیں گے، انشا اللہ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کوئی بھی پاکستانی ٹیکس ادا کرنے کا خواہشمند بالکل بھی نہیں ہے، کیونکہ ہم ٹیکس درآمدای چیزوں پر لگاتے ہیں جس کی وجہ سے چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں اور پاکستانی مینوفیکچرر پاکستان سے بہت زیادہ نفع کما سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے وزیرخزانہ بننے سے پہلے فروری میں ایک بڑے کاروباری گروپ میرے پاس آیا اور کہا کہ ہم پاکستان میں پولی پروپلین کی فیکٹری لگانا چاہتے ہیں، پاکستان میں یہ نہیں بنتا، ان کا کہنا تھا جب فیکٹری لگ جائے گی تو 20 فیصد ڈیوٹی لگا کر تحفظ چاہیے اور کہا کہ ہم چین سے مسابقت نہیں کرسکتے، لہذا ہم پاکستانی برآمدات کا نہیں سوچتے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ بنگلہ دیش نے گارمنٹس بنا بنا کر خود کو امیر کر لیا، بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے زیادہ تھی، آج ان کی آبادی 15،16 کروڑ اور ہماری 23 کروڑ ہے، ہم خاندانی منصوبہ بندی کی بات کریں تو اسلام خطرے میں آ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دنیا میں 10 بچے اسکول سے باہر ہیں تو اس میں سے ایک بچہ ہمارا ہے۔مفتاح اسماعیل نے پریزینٹشن میں بتایا کہ گزشتہ برس 5.97 فیصد شرح نمو تھی، گزشتہ برس ہمارا تجارتی خسارہ 49.4 ارب ڈالر کا سب سے زیادہ خسارہ تھا جو جی ڈی پی کا 15 فیصد تھا۔
انہوںنے کہاکہ گزشتہ برس ہمارا مالیاتی خسارہ 5 ہزار 260 ارب روپے کا تھا۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسما عیل نے کہا کہ 2013 میں پاکستان مسلم لیگ(ن)حکومت آئی تھی تو ہمیں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کے پاس جانا پڑا تھا، اس وقت 7 ارب ڈالر کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تھے جو چند ماہ بعد کم ہو کر 2 ارب ڈالر رہ گئے تھے، وہاں سے اس کو اٹھانا تھا۔
انہوں نے کہاکہ جب آئی ایم کا پروگرام ختم ہوا تو ہم بدنظمی میں آگئے، دیگر وجوہات تھیں اور کرنسی کو مستحکم رکھنا تھا، اس کے بعد کرنٹ اکائونٹ خسارہ (سی اے ڈی) 19ارب ڈالر کا ہوگیا جو جی ڈی پی کا 6 فیصد کے برابر تھا، یہ پرویز مشرف کے دور میں 8 فیصد جتنا برا نہیں تھا، ایک بار پھر دنیا بھر میں کوئی بھی اس کو فنانس کرنے پر رضامند نہیں تھا،
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کچھ عرصے تک ادھر ادھر سے کوششیں کرتے رہے لیکن انہوں نے آئی ایم ایف میں جانے سے پہلے ایک سال لگا دیا۔مفتاح اسماعیل نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ڈسپلن میں آئے، شرح نمو بھی تھوڑی کم ہوئی، اس کے بعد کووڈ19 آ گیا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف نے بریک دے دیا اور دنیا نے ساڑھے 4 ارب ڈالر کی ادائیگیاں بھی مخر کر دیں، اس دور میں حکومت کو فنانس کا اتنا نقصان نہیں ہوا،
اس کے بعد شرح نمو میں اضافہ لے کر آئے، ترقی کی رفتار 5 فیصد سے اوپر گئی تو گزشتہ برس ساڑھے 5 ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو زرمبادلہ کے ذخائر 10.3 ارب ڈالر کے تھے جبکہ گزشتہ برس 2،4 ارب ڈالر اور رواں مالی سال میں 21 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا تھیں جس کی وجہ سے ہمیں نظر آرہا تھا کہ ملک دیوالیہ ہو گا،
اور آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا تھا تو وہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔انہوں نے کہاکہ ہم بہت زیادہ سوچتے نہیں ہیں، ہم نے امپورٹ سبٹیٹیوشن کا ایک ماڈل پکڑا ہوا ہے، ہم اس ماڈل پر کام کرتے ہیں اور برآمدات کے فروغ کے لیے کام نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر مرکزی بینک نے ٹرم لون 1 فیصد پر دیے تھے، ایک پاکستانی نے 90 ارب روپے کا قرضہ لیا، کل 570 ارب روپے کا قرضہ دیا گیا تھا،
جتنے بھی یوتھ پروگرام وغیرہ کرتے ہیں یہ سب ملا کر بھی 90 ارب روپے نہیں بنتے، حکومت کی سوچ ٹھیک ہوتی ہے کہ یہ پیسے دے کر معیشت چلے گی، ہوتا یہ ہے کہ ہم کسی کو بولتے ہیں کہ یہ 200 کروڑ روپے لے لو اور ایک فیکٹری لگا اور جب فیکٹری لگ جائے تو 20 ہزار روپے کی کسی کو نوکری دے دینا، حکومت کے پاس ہمیشہ سے یہ ماڈل رہا ہے، یہ ماڈل پائیدار نہیں ہے۔مفتاح اسماعیل نے کہاکہ وہ فیکٹری امپورٹ بیسڈ پر لگتی ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے،
پھر جب آپ کو 20 ہزار روپے کی نوکری دینی پڑتی ہے تو معیشت کو آہستہ کرنا پڑتا ہے، جب معیشت کو آہستہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے اسی 20 ہزار روپے والے کی نوکری چلی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم امیر لوگوں کو مزید امیر کرکے شرح نمو بڑھاتے ہیں تو مسئلہ ہو جاتا ہے، امیر لوگ درآمدی اشیا زیادہ استعمال کرتے ہیں، مثال کے طور پر پیسے والا گاڑی چلاتا ہے، پیٹرول استعمال کرتا ہے،
گاڑی اور پیٹرول دونوں درآمدات کیے جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت کے پاس 13 مہینے ہیں، ہوسکتا ہیں میرے پاس اتنا وقت نہ ہو لیکن میں اس طرح کام کرتا ہوں کہ میں زندگی بھر یہاں پر ہوں، پاکستان تو رہے گا نہ، اسی طرح کام کرنا ہے کہ اگلے پانچ سال کے لیے منصوبہ بندی کر کے جائیں اس کے بعد آنے والوں کی مرضی ہے، مجھے نہیں پتہ کہ کتنے دن رہوں گا لیکن حکومت کی سوچ ہے کہ
اگلے 6 سال تک رہیں گے، انشا اللہ اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے۔انہوں نے کہاکہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح کو 10.5 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد تک بڑھائیں گے، اور پیٹرولیم لیوی ہر مہینے 4، 4 فیصد بڑھا کر 30 روپے تک لے کر جانی تھی، جب ہم نے کہا کہ سیلز ٹیکس ہٹا دو میں پیٹرولیم لیوی 30 کی جگہ ہر مہینے 5 روپے بڑھا کر
اپریل تک 50 روپے تک بڑھاں گا، ان کا کہنا تھا کہ آج پیٹرول پر لیوی30 روپے کی جگہ 37 روپے کر دی کیونکہ ڈیزل کی قیمت مزید بڑھ گئی تھی اور معاہدے کے تحت اس پر 15 روپے لیوی ہونی چاہیے تھی جو 7.5 روپے عائد ہے، ہم نے مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل پر بھی لیوی نہیں لگائی، اس وقت ہم ڈیزل کو مہنگا نہیں کرسکتے۔
مفتاح اسماعیل نے کہاکہ میں شرمندہ ہوں کہ میں وزیر خزانہ ہیں اور اس دور میں مہنگائی ہو رہی ہے، ہم اس بات سے انکار نہیں کررہے کہ 47 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی ہے لیکن جب آپ کے پاس 10 ارب ڈالر ہوں اور 20 ارب ڈالر باہر دینے ہوں اور 10 ارب ڈالر کی درآمدات کرنا ہوں
اور 35 ارب ڈالر کا خرچہ ہو تو سامنے ڈیفالٹ نظر آرہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ایک لمحے کے لیے سری لنکا کا سوچیں، وہاں پر پیٹرول 470 روپے فی لیٹر ہے جبکہ وہاں پر بلیک میں 3 ہزار روپے فی لیٹر پیٹرول مل رہا ہے،
ان کے ہسپتالوں میں ادویات کے پیسے نہیں ہیں۔وفاقی وزیر نے کہاکہ سری لنکا میں پکانے کی گیس لینے کے لیے قطار میں 2 دن انتظار کرنا پڑتا ہے، میں آپ کو قسم کھا کر بتا رہا ہوں کہ اگر ہم سخت اقدامات نہ کرتے تو ہم 2 مہینے میں دیوالیہ ہو جاتے۔