اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) منی بجٹ کا امکان، پاکستانی سفارتکاروں کی مراعات پر ٹیکس چھوٹ، مراعات بحال کی جاسکتی ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ جلد ایل او آئی پر دستخط کا امکان ۔ روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی شائع خبر کے مطابق ایک منی بجٹ کا امکان ہے جیسا کہ حکومت نے 18ارب روپے قومی خزانے میں لانے کیلئے اضافی ٹیکس کے اقدامات کرنے کیلئے ایک آرڈیننس
جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کیلئے مختلف شعبوں میں اضافی ٹیکس لانے پر غور کیا جا رہا ہے جیسا کہ حکومت کھاد وغیرہ پر مزید ٹیکس لگا سکتی ہے۔ تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے کھاد کے شعبے پر ٹیکس بڑھانے کا خیال ترک کر دیا ہے اس لئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سگریٹ اور تمباکو کے پتوں کی پروسیسنگ پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مجوزہ آرڈیننس کے ذریعے حکومت دنیا کے مختلف مقامات پر تعینات پاکستانی سفارتکاروں کو حاصل مراعات پر ٹیکس چھوٹ بحال کر سکتی ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ اس کے لیے ریونیو کی جانب سے ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت درکار ہوگی۔ ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ حکومت نے اصولی طور پر ایف ای ڈی کی شرح میں اضافہ کرکے تمباکو کے شعبے سے 12ارب روپے اور تمباکو کی گرین لیف تھریشنگ پراسیس (جی ایل ٹی پی) پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے ذریعے مزید 6ارب روپے حاصل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے جیسا کہ ایڈجسٹ موڈ میں ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا۔
حکومت آئی ایم ایف کے رکے ہوئے پروگرام کو بحال کرنے کیلئے منی بجٹ پیش کرنے پر مجبور ہے جیسا کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی قیادت میں حکومت نے ریٹیلرز کے سامنے اپنے فکسڈ ٹیکس کو معاف کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے جسے بجلی کے بل کے ذریعے وصول کیا جانا تھا۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے تصدیق کی کہ آئی ایم ایف کسی بھی وقت جلد ہی لیٹر آف انٹینٹ (ایل او آئی) بھیجے گا جیسا کہ آئی ایم ایف کے مشن چیف کو اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے آسٹریلیا جانا پڑا۔
ہمیں اگلے 24گھنٹوں کے اندر ایل او آئی موصول ہو سکتا ہے اور پھر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے دستخط کیے جائینگے۔ حکومت کی جانب سے کچھ دلچسپ کام کیے گئے ہیں جیسا کہ ایف بی آر کا اندازہ ہے کہ وہ خوردہ فروشوں سے بجلی کے بلوں کے ذریعے 27ارب روپے وصول کرنے جا رہا ہے اور معاہدے سے قومی خزانے کو صرف 15ارب روپے کا نقصان ہونے والا ہے۔
تبصرے کیلئے جب وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جاری ماہ کے آخر تک آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کیلئے ایل او آئی جلد روانہ کر دیا جائے گا۔ اضافی ٹیکس کے اقدامات کے بارے میں ایک اور سوال پر وزیر نے کہا کہ مختلف تجاویز زیر غور ہیں اور وزیراعظم جلد فیصلہ کریں گے۔
تاہم سرکاری ذرائع، جنہوں نے آرڈیننس کے ذریعے متوقع اضافی ٹیکس کے اقدامات پر ابتدائی کام کیا ہے، نے کہا کہ حکومت نے بجلی کے بل کے ذریعے جمع ہونے والے بجٹ کے موقع پر خوردہ فروشوں کے ذریعے 42 ارب روپے حاصل کرنے کا تصور کیا لیکن پھر حکومت نے معاہدے پر دستخط کیے جس کی وجہ سے یہ 15ارب روپے معاف کرنے جا رہی ہے۔
اس طرح اعلیٰ درجے کے خوردہ فروشوں کے ذریعے مجموعہ 27ارب روپے حاصل کر سکتا ہے۔آزاد معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مالیاتی محاذ پر مزید خلا ہے جیسا کہ ان کے اندازوں کے مطابق حکومت نے خوردہ فروشوں پر 31ارب روپے کا ٹیکس معاف کر دیا اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے پی ایس او کو 30 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ فراہم کی۔
سستی گیس اور بجلی کی فراہمی کے لیے پانچ برآمدی صنعتوں کیلئے اضافی سبسڈی کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن حکومت نے دلیل دی کہ اس کے پاس گیس کی سستی دستیابی کیلئے مناسب بجٹ مختص کیا گیا جس کے لیے 40ارب روپے درکار تھے۔ بجلی کیلئے ای سی سی نے دو ماہ کے لیے بجلی کی رعایتی شرح کی منظوری دے دی اور پھر اس پر کام کیا جائے گا۔ عہدیدار نے کہا کہ آئی ایم ایف برآمدی شعبوں کے لیے سستی گیس اور بجلی کی فراہمی پر ہمارے کام سے مطمئن ہے۔