ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بجلی قیمتوں میں اضافے کے اثرات تباہ کن ماہرین نے حکومت کو خبر دار کردیا

datetime 12  جون‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (این این آئی)ماہانہ بلوں میں شامل ہونے والے بجلی کے چارجز میں 46.77 فیصد کے حیران کن اضافے کے حوالے سے تمام شعبوں کے ماہرین، ماہرین اقتصادیات، ماہرین سماجیات اور سیاست دانوں کا اتفاق ہے کہ اس کا پاکستانیوں کی بڑی اکثریت پر تباہ کن اثر پڑیگا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے پہلے ہی موجودہ 16.91 روپے

سے 24.82 روپے فی یونٹ کی بنیادی قیمت میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی ہے اور حکومت نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ اس کے اطلاق کا نوٹی فکیشن جاری کرنے والی ہے۔بجلی کے بلوں پر عام ٹیکس کی شرح تقریباً 22 فیصد ہے جس سے فی یونٹ لاگت میں مزید 5.46 روپے کا اضافہ ہو جائے گا اس کے نتیجے میں گھریلو صارفین کے لیے یہ شرح 30.28 روپے فی یونٹ ہو جائے گی۔ماہر سماجیات پروفیسر محمد شبیر نے کہا کہ سماجی اور اقتصادی تباہی ہونے جارہی ہے، چند لاکھ لوگوں کو غربت کی لکیر سے مزید نیچے دھکیل دیے جائیں گے، متوسط طبقے میں کمی اور نچلے متوسط میں اضافہ ہوگا، جرائم کی شرح بڑھے گی اور سماجی انتشار مزید گہرا ہوگا۔انہوںنے کہاکہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کو بھی کوئی فائدہ نہ ہو کیونکہ بجلی کی چوری میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا جوکہ مطلوبہ اثرات کو بے اثر کرنا، چوری کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس قسم کے بوجھ جلد ہی بقا کے لیے چیلنج میں بن جائیں گے جس کا اکثریت مقابلہ نہیں کر سکتی، تیل اور گیس کی قیمتوں کے بھی اسی طرح کے دباؤ شامل ہوں گے اور سماجی افراتفری کا خدشہ ایک المناک صورت اختیار کرے گا۔

ایک شو روم اور اشیا خورونوش کے کاروبار سے جڑے محمد رمضان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے کثیر الجہت اثرات ہوں گے اور اس کا پے در پے دبائہ ہو گا، دکاندار زیادہ بل ادا کریں گے اور زیادہ نرخ مانگیں گے، ہوٹل مالکان اب اضافی بلز ادا کریں گے اور انہیں کسٹمر چارجز میں شامل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ دبائو کا سامنا کریں گے اور ان کے مسائل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر خبروں کی زینت بنیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک جس طرز حکمرانی کا سامنا کر رہا ہے اس کے پیش نظر کوئی بھی نہیں جان سکے گا کہ اس اضافے کا اصل اثر کیا ہے اور یہ بے بس صارفین پر کس حد تک منتقل کیا جا رہا ہے۔

ماہر معاشیات اور کالم نگار ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ اس اضافے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سے بچنا ممکن تھا، اگر یکے بعد دیگرے حکومتیں گزشتہ چند برسوں میں اپنے بل کی وصولی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتیں تو وہ نقصانات کو کم کر سکتی تھیں اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لیے قرض دہندگان کے دباؤ سے بچ سکتی تھیں’۔

انہوں نے کہا کہ وصولیاں بل میں طے کی گئی رقم کے 90 فیصد پر پھنسی ہوئی ہیں اور وصول نہ کی جاسکنے والی ادائیگیاں 10 فیصد یعنی 150 ارب روپے سالانہ پر ہیں، اس میں مزید 300 ارب روپے کی چوری شمار کریں تو یہ شعبہ تجارتی حیثیت کھو دیتا ہے۔ڈاکٹر فرخ سلیم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ المیہ سامنے آ رہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم جائزہ نہیں لے سکے۔

کارکردگی کو بہتر بنانے کی بجائے ہم نے ہمیشہ ٹیرف میں اضافے پر انحصار کیا جو کہ تیزی سے اپنی افادیت کھو دیتا ہے کیونکہ ریکوری میں کمی اور چوری بڑھ جاتی ہے جس سے شعبہ واپس اسی مقام پر آکھڑا ہوتا ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس اضافے سے اس شعبے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے لوگوں کو اتنا نقصان پہنچے گا جتنا کہ عام طور پر خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔

پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے سابق سربراہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیپرا کے پاس بجلی کے نرخوں کو ایڈجسٹ کرنے کا تین جہتی طریقہ کار ہے جس میں ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ قیمت کا فیصلہ کرتے وقت نیپرا 9 متغیرات پر غور کرتا ہے جن میں ایندھن کی قیمت، ڈالر کی برابری، آپریشن اور مینٹی نینس چارجز شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ڈالر کی قیمت میں ابھی اضافہ کیا جاتا ہے تو اس کا بعد میں ہونے والی ایڈجسٹمنٹ پر صفر سے کم اثر پڑے گا، تیل کی قیمتوں کا بھی یہی حال ہے، اگر موجودہ تعین میں بنیادی حوالہ قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے تو مستقبل میں فیول لاگت کی ایڈجسٹمنٹ اسی طرح کم ہو جائے گی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بنیادی طور پر ان تمام ایڈجسٹمنٹس کو آئندہ مالی سال میں دوبارہ ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ٹیرف کے تعین کے عمل میں شامل پیپکو کے ایک سابق افسر نے کہا کہ اس قسم کا غیر معمولی اور تیز اضافہ نیپرا کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، یہ عوامی مفادات کے محافظ کے طور پر اس کے کردار پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ جب ان کے پاس ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ اضافے کے آپشن تھے تو انہوں نے ان سب کو ایک ہی قدم میں ختم کر کے ایک ہی بار میں قیمت کیوں بڑھا دی؟ یہ ایک سال یا اس سے زائد عرصے میں اضافے کو روک سکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ پہلے سے دبائو کا سامنا کرنے والے صارفین پر یہ اضافی بوجھ نیپرا کی ناکامی ہے۔

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…