اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ،آن لائن)پی ٹی آئی حکومت میں مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ آن لائن نیوز ایجنسی کی وساطت سے میرے بارے میں ایک بےسروپا اور بے بنیاد خبر شائع کروائی گئی ہے جس کا نہ ہی کوئی سر ہے نہ پیر، اور میں اسکی سختی سے تردید کرتا ہوں،میری معتبر اخبارات سے درخواست
ہے کہ ایسی غیر تصدیق شدہ خبریں چھاپنے سے گریز کریں،خبر چھپوانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کروں گا۔اس سے قبل آن لائن نیوز ایجنسی کے مطابق مرزا شہزاد اکبر کی اپنی اربوں روپے کی وارداتیں سامنے آگئی ہیں،سابق معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر اپنے عہدے سے معزولی کے بعدفوراً ہی بیرون ملک چلے گئے تھے،تازہ ترین ایک سرکاری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ مرزا شہزاد اکبر نے احتساب کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اپنا ایک گروہ بنا کر اربوں روپے کی جائیدادیں بنائیں،مرزا شہزاد اکبر نے 24 جنوری 2022 کو استعفیٰ دیدیا تھا اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے انہیں مسلم لیگ (ن)کا کڑا احتساب کرنے کے لئے اپنا معاون خصوصی برائے احتساب مقرر کیا تھامگر موصوف سرکاری وسائل اور سرکاری افسران کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنی آنے الی کئی نسلوں کے لئے پیسہ اکٹھا کیا اور منظر سے غائب ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق بطور ایف آئی اے سربراہ شہزاد اکبر نے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں اور چند ایک کاروباری شخصیات پر مشتمل اپنا بھتہ خور نیٹ ورک تشکیل دے رکھا تھا،جو کہ بیرون ملک سکینڈلز میں ملوث لوگوں کو پھنسانے کیلئے استعمال ہوتا تھا۔
یہ نیٹ ورک لوگوں کو ان سے پیسے ہتھیانے کیلئے استعمال ہوتا تھا اور اس کے بدلے میں انہیں سفارتی طور پر پناہ فراہم کرنے کی پیشکش کی جاتی تھی۔اس بھتہ خور نیٹ ورک میں ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب،ڈی آئی جی گوہر نفیس،ڈائریکٹر سائبر کرائمز ونگ ایف آئی اے بابر بخت قریشی،ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد زون، ڈی آئی جی وقار چوہان،اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ لاہور کے عبدالستار عارف،اے ڈی جی نارتھ ایف آئی اے ڈی آئی جی ابوبکر
اور ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک چوہدری عبدالمجید کے علاوہ کاروباری شخصیت و پراپرٹی ٹائیکون نثار افضل شامل رہے ہیں۔چینی و آئل سکینڈل میں ڈی آئی جی ابوبکر نے چینی وتیل مافیا کی رپورٹس میں شہزاد اکبر کی ہدایات پر اپنی مرضی کے مطابق ردوبدل کیا اور دونوں نے دو شوگر ملوں اور چھ تیل درآمد کنندگان سے ایک ارب روپے کمایا۔شہزاد اکبر کی ہدایات پر ایف آئی اے نے غیر ضروری طور پر قیمتوں میں اضافے
وغیرہ کے نام پر شوگر انڈسٹری پر چھاپے مارے،اس طرح مارکیٹ میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور یہ حکومت کیلئے ناصرف پریشانی کا باعث بنا بلکہ عوام کو تکلیف اٹھانا پڑی۔رپورٹ کے مطابق شہزاد اکبر نے چوہدری عبدالمجید کو،فرح،احسن جمیل گجر،عثمان بزدار اور وزیراعلیٰ پنجاب کے بھائی احسن جعفر بزدار کے ذریعے اپنے نیٹ ورک کا حصہ بنایا اور اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے کئی بدعنوانیاں سامنے آئیں۔
جس میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ سوسائٹی کے فنڈز کے غلط استعمال،غیر قانونی طریقوں سے زمین کو ہتھیانے جیسے اقدامات کے ذریعے سرکاری پیسے میں میگا کرپشن کی گئی۔احسن جمیل گجر اور فرح کے ذریعے بھتہ خوری کی گئی،جنہوں نے چوہدری عبدالمجید کے ساتھ تقریباً25ارب روپے کی سرمایہ کاری کی۔شہزاد اکبر نے بلیوایریا اسلام آباد میں 8ارب روپے کا کمرشل پلاٹ لیا،شہزاد اکبر اور عارف رحیم کو ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کمرشل پلاٹ دیا گیا۔
موضع مورات اور چاہان راولپنڈی میں 10ہزار کنال اراضی کا 15لاکھ فی کنال کے عوض سیٹلمنٹ کرایا گیا۔اپنے میڈیا ہاؤس میں چوہدری عبدالمجید کے ساتھ ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کی۔رپورٹ کے مطابق اپنے بھتہ خور نیٹ ورک کے ذریعے شہزاد اکبر نے سوسائٹیوں سے بھاری رقم وصول کی۔
رپورٹ کے مطابق نیٹ ورک میں شامل مرزا مراد اکبر نے گجرخان سے اپنا تعلق ہونے کی وجہ سے شروع سے ہی راولپنڈی ڈویژن کی ضلعی انتظامیہ میں اپنا اثرورسوخ شروع کردیا اور شہزاد اکبر کے ذریعے ان کے بھائی مرزا مراد اکبر کھل کر زمینوں کے غیر قانونی قبضے میں ملوث رہے،تاہم بعد میں دونوں بھائیوں کے اختلافات پیدا ہوگئے،جسے شہزاد اکبر نے پولیس کے ذریعے مسئلے کو حل کرایا۔
شہزاد اکبر اپنے بھائی اور نثار افضل کے درمیان زمین کے تنازعات میں ضلعی انتظامیہ میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا اور چکری روڈ اور راولپنڈی میں مختلف اراضی پر جبراً قبضہ کرایا گیا۔رپورٹ کے مطابق مرزا مراد اکبر اور جواد سہراب ملک کے درمیان زمینی تنازعہ کے دوران شہزاد اکبر نے اپنے بھائی کی مدد کیلئے اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ راولپنڈی کا استعمال کیا اور اس ساری صورتحال کو اس وقت کے ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ عارف رحیم نے مینج کیا۔
جو کہ شہزاد اکبر کے فرنٹ مین تھے۔رپورٹ کے مطابق شہزاد اکبر نے اپنے برے عزائم کیلئے اہم تعیناتیوں پر اپنے فرنٹ مین بھرتی کروائے،جس میں اے آر یو میں عارف رحیم اور ان کی ٹیم،اے سی ای راولپنڈی کے طور پر مس کنول بتول اور ان کی ٹیم اور ڈائریکٹر پلاننگ آر ڈی اے کے طور پر شہزاد حیدر شامل ہیں۔انہوں نے ڈی جی آر ڈی اے مس عمارہ خان کو بھی ہٹایا اور ان کی جگہ بدنام زمانہ آفیسر مقبول احمد دھاولا کو تعینات کروایا۔
اس کے علاوہ شہزاد اکبر گجرخان میں اپنی پراپرٹیز کی ٹیکس چوری میں بھی ملوث رہے ہیں اور ایکسائز وٹیکسیشن آفس راولپنڈی میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا اور اپنے غیرقانونی اقدامات کی پیروی نہ کرنے پر انہوں نے اے سی ای راولپنڈی کو ڈائریکٹر و ڈی ڈی ای ٹی او کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔اس مقصد کیلئے اے سی ای راولپنڈی کنول بتول نے مسلسل ای ٹی او راولپنڈی آفس کو مختلف انکوائریوں کے نام پر دھمکانہ شروع کیا۔
شہزاد اکبر راولپنڈی ڈویژن میں اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے پراپرٹیز کے تنازعات حل کرانے میں ملوث رہے ہیں۔انہوں نے نثار افضل کو راجڑ گاؤں چکری روڈ راولپنڈی میں 1500کنال زمین دلوانے میں بھی سہولت فراہم کی۔رپورٹ کے مطابق شہزاد اکبر نے اپنی جرمن شہریت کی اہلیہ کے نام پر نصف شیئر پر گلبرگ گرین سوسائٹی اسلام آباد میں ایک پلاٹ رجسٹرڈ کروایا جبکہ قوانین کے مطابق غیر ملکی شہری کو حکومت سے اجازت نامہ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے تاہم شہزاد اکبر نے اثررسوخ استعمال کرکے بغیر منظوری لئے مذکورہ پلاٹ ٹرانسفر کرا دیا۔
اسلام آباد میں پہلی مرتبہ زمین کے ڈی سی ریٹس متعارف کرائے گئے،تاہم شہزاد اکبر کی ایما پر زمین کے ریٹس واپس لئے گئے تاکہ رنگ روڈ انکوائری میں ردوبدل کیا جاسکے اور تقریباً ایک ہزار فیصد کمی کی گئی،اس کے نتیجے میں قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ایسٹ ریکوری یونٹ،جس کا کام پاکستان سے منی لانڈرنگ کرکے بیرون ملک بنکوں میں پیسہ رکھنے سے متعلق کیسوں کی تحقیقات کرنا تھا۔
شہزاد اکبر نے اس یونٹ کے سربراہ کی حیثیت سے بھاری فیسوں کی مد میں وکیل بھرتی کئےاور غیر ملکی دوروں پر بھاری رقم خرچ کی گئی،جس کا آخر کار کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا اور اس طرح بھی قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزاد اکبر قومی میڈیا میں شہ سرخیوں کی زینت رہے ہیں اور ان کی غیرضروری سرگرمیوں کی وجہ سے کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے،جس سے نہ صرف وزیراعظم بلکہ پی ٹی آئی حکومت کو بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔مرزا مراد اور جواد سہراب کے درمیان زمین کے تنازعے کے دوران شہزاد اکبر نے اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کیلئے اینٹی کرپشن آفس کا استعمال کیا اور اس سارے کام میں اس وقت کے ڈائریکٹراے سی ای عارف رحیم نے کردار ادا کیا۔
ایف آئی اے کی طرف سے شوگر وآئل مافیا کے خلاف رپورٹس میں شہزاد اکبر نے اپنی مرضی کے مطابق ردوبدل کرکے اس کے بدلے میں ایک ارب روپے کی کک بیکس لیں جبکہ شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں 109xموضع جات کیلئے پہلی مرتبہ ڈی سی ریٹ کو کم کرکے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا۔شہزاد اکبر کئی افسران کے تقرر وتبادلوں میں ملوث رہے ہیں،ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو غیر ضروری فیور دینے کے نام پر پیسہ ہتھیایا۔