سپریم کورٹ نے پراسیکیوشن کو ہائی پروفائل  کیسز واپس لینے سے روک دیا

19  مئی‬‮  2022

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تاحکم ثانی کوئی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاہے کہ ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے۔

اس طرح کیوں ہورہا ہے؟،ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی کو پیش ہونے سے منع کیا، پروسیکیوشن برانچ اور پروسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، پروسیکیوشن کو ہٹانے کا جاننا چاہتے ہیں،امید ہے وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی،ہماری تشویش صرف انصاف فراہمی کیلئے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار،عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں،،ہم پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہیں کر رہے، ہم کسی قسم کی تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے، آئین اور اللہ کو جوابدہ ہیں، تعریف کی ضرورت نہیں اور نہ تنقید کا خوف ہے،انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے۔جمعرات کو حکومتی شخصیات کی جانب سے تحقیقات میں مبینہ مداخلت پر سپریم کورٹ کے لیے گئے ازخودنوٹس کی سماعت چیف جسٹس جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے کی۔بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، چیئرمین نیب، سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وضاحت کی جائے کہ کرمنل کیسز میں مداخلت کیوں کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ نے تفتیشی افسران اور تبدیل/پوسٹ ہونے والے افسران کے علاوہ تمام صوبوں کے پراسیکیوٹر جنرل اور ایف آئی اے کے لیگل ڈائریکٹر کو بھی نوٹسز جاری کردیے۔عدالت نے ہدایت کی کہ آئین کے ا7رٹیکل 25، 10(اے) اور 4 کی عملداری ہونی چاہیے۔

کرمنل جسٹس سسٹم کی شفافیت اور ساکھ کو برقرار رکھا جائے، عدالتی کاروائی کا مقصد صرف اسی حد تک ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے رات گئے لیے گئے از خود نوٹس پر ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پیپر بک پڑھا ہے؟اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ جی میں نے پڑھا ہے، پیپر بک میں عدالت کے معزز جج کی جانب سے مداخلت کے بارے میں ذکر ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ از خود نوٹس لینے کی وجوہات صفحہ نمبر دو پر موجود ہیں وہ پڑھیں، جس پر اٹارنی جنرل کو سو موٹو نوٹس کیس کی پیپر بک پڑھنے کیلئے دی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور کی احتساب عدالت سے کئی افسران کا تبادلہ کیا گیا، ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے، اس طرح کیوں ہورہا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی کو پیش ہونے سے منع کیا، پروسیکیوشن برانچ اور پروسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، پروسیکیوشن کو ہٹانے کا جاننا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں اچھا کام کرہے تھے، کے پی کے میں بھی ان کی کارکردگی اچھی تھی، ڈی جی ایف آئی اے نثااللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا، ڈاکٹر رضوان کو بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا، ان معاملات پر تشویش ہے۔انہوںنے کہاکہ اخبار کے تراشوں کے مطابق ای سی ایل سے نام نکلنے پر ہزاروں افراد کا فائدہ ہوا، ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں، ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کیلئے ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے نے ان تمام معاملات کی تردید نہیں کی۔

ایف آئی اے کا مؤقف ہے کہ یہ روٹین کے معاملات ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اپریل اور مئی میں کئی اخباری خبروں کو پیپر بک میں شامل کیا گیا ہے، خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہو گیا ہے، نیب کے چار مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبر بھی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں، جج کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے، ججز کو بڑا محتاط ہونا چاہیے، ججز کو قانون کے مطابق فرائض سمجھنے ہیں۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں تحریری درخواست دی اور عدالت کو بتایا کہ انہیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا ہے، پراسیکیوٹر کو کہا گیا جو بندہ وزیر اعلیٰ/وزیراعظم بننے والا ہے اس کے مقدمے میں پیش نہ ہو۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہر یہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کیے گئے، اس پر تشویش ہے اس لیے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا آپ تعاون کریں۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے درخواست دینا پڑتی ہے، سیکڑوں افراد کی درخواستیں زیر التوا پڑی رہتی ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری تشویش صرف انصاف فراہمی کے لیے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار،عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہیں کر رہے، ہم کسی قسم کی تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے، آئین اور اللہ کو جوابدہ ہیں، تعریف کی ضرورت نہیں اور نہ تنقید کا خوف ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں جو اندراج مقدمہ سے فیصلہ پر ختم ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل بہت مضبوط ہیں، ہم خاموش تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے، مئی سے یہ اقدامات ہونا شروع ہوئے ہم ان اقدامات کو دیکھتے رہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمات کے ملزم کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا،ملزمان کو عدالت نے سزائیں نہیں سنائیں۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے، آئیڈیا سسٹم کی ساکھ کو برقرار رکھتا ہے، ہم عدالتی کارروائی کا جائزہ لے رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز، خصوصی عدالت اور نیب کیسز میں تقرری و تبادلوں سے روک دیاانہوں نے کہا کہ لاہور اور کراچی کی خصوصی عدالتیں ججز سے خالی پڑی ہیں، اسلام آباد کی بھی تین احتساب عدالتیں خالی ہیں۔

دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے تاحکم ثانی تقرر و تبادلے سے روک دیا اور نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ واپس نہ لینے کی ہدایت کی۔عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے میں ٹرانسفر پوسٹنگ افسران کو ہٹانے، تحقیقاتی اور پروسیکوشن برانچ میں تبدیلیوں پر جواب دیا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے نیب کے تحقیقاتی اور پروسیکیوشن ڈپارٹمنٹ میں بھی ٹرانسفر پوسٹنگ پر جواب دینے کی ہدایت کی۔

عدالت نے ماضی کی ٹرانسفر پوسٹنگ پر اٹارنی جنرل کو خود سے جواب دینے کی اجازت دے دی۔عدالت نے استفسار کیا کہ نیب ایف آئی اے کی تحقیقاتی اور پروسیکوشن برانچز میں جس کو تبدیل کیا اس کی جگہ پر کون آیا، گزشتہ چھ ہفتوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں کے معاملہ پر بھی ہوا، مقدمات کی نامکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کے لیے اقدامات سے آگاہ کیا جائے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اخبارات میں 2 ماہ سے خبریں دیکھ رہے ہیں، اخباری خبروں کے مطابق ای سی ایل پالیسی بدلنے سے 3 ہزارسے زائد لوگ مستفید ہوں گے، ای سی ایل کی پالیسی میں ردوبدل سے متعلق بھی جاننا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جاننا چاہتے ہیں کس طریقہ کار سے ای سی ایل میں موجود افراد کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے؟

کوئی رائے نہیں دے رہے،صرف حقائق جاننا چاہتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے درخواست دینا پڑتی ہے، سیکڑوں لوگوں کی درخواستیں پینڈنگ پڑی رہتی ہیں،ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے کیا طریقہ کار اختیارکیا گیا؟ ای سی ایل میں نام ڈالنے یا نکالنے کا طریقہ کار اگر بدلا ہے تو اسے عدالت کے سامنے رکھیں۔

عدالت نے کہا کہ 6 ہفتے میں جن افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ان کی فہرست دیں۔دور ان سماعت عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی کہ ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ ایف آئی اے اور نیب میں چیک کیا جائے اور چیک کرنے کے بعد سیل کیا جائے، ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کر کے مجاز اتھارٹی کو رپورٹ پیش کریں۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ سیل کرنے سے ٹرائل رک جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زیر التوا مقدمات کا ریکارڈ سیل نہیں کر رہے ہیں بلکہ پروسیکیوشن کے ریکارڈ کو سیل کر رہے ہیں۔بعدازاں عدالت نے چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے، سیکرٹری داخلہ کو طلب کرلیا اور صوبائی ایڈوکیٹ جنرل و پراسیکوٹرجنرلز، سربراہ پروسیکیویشن ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کر کے تمام افسران کو تحریری جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی اور سماعت 27 مئی تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطابندیال نے حکومت شخصیات کی جانب سے زیرالتوا مقدمات کی تحقیقات میں مداخلت پر اثر انداز ہونے کے تاثر پر ازخود نوٹس لیا تھا۔سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ موجودہ حکومت میں موجود افراد سے متعلق زیر التوا کرمنل معاملات کی پروسیکیوشن اور تفتیش کیلئے پروسیکیوشن برانچ کے اختیارات اور فرائض کی ادائیگی میں مداخلت کا خدشہ ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ خدشہ ہے کہ اس طرح کی مداخلت سے مقدمات کی تفتیش، عدالتوں میں شہادتوں میں ردوبدل یا غائب کرنے یا تفتیشی اداروں کے قبضے میں اور اہم عہدوں پر تبادلے اور تعیناتیوں میں اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ازخود نوٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ احتساب کے قوانین میں تبدیلی کی اس طرح کی کارروائیوں، میڈیا رپورٹس کے ساتھ ملک میں نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی مترادف ہے جو معاشرے پر بطور مجموعی اثر انداز ہو رہا ہے اور ملک میں عوام کا قانون اور آئین کی بالادستی پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…