منگل‬‮ ، 09 دسمبر‬‮ 2025 

صدارتی ریفرنس،ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا، سپریم کورٹ

datetime 16  مئی‬‮  2022 |

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے ہیں کہ انحراف سے بہتر ہے استعفیٰ دیں، اس سے سسٹم بچ جائے گا، استعفیٰ دینے والے کو عوام ووٹ دیں تو وہ دوبارہ آجائے گا، ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے

صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی جس دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور (ن) لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے التوا کی درخواست کی جس پر عداالت نے برہمی کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور مخدوم علی خان ایک ہی فریق کے وکلا ہیں، التوا کی درخواستوں کا مطلب ہے کہ حکومت تاخیرکرنا چاہتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے پیرکو دلائل میں معاونت کرنے کی بات خود کی تھی اور مخدوم علی خان کو بھی پیر کو دلائل کیلئے پابند کیا تھا، عدالت کے اوربھی کام ہیں، تین بینچزکے جج اس لارجربینچ کا حصہ ہیں، آرٹیکل 63 اے عوامی مفاد کا اہم ترین ایشو ہے جس کو سن کرجلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اورعوامی مفاد سے متعلق معاملات سننے کیلئے ہروقت تیارہے، عدالت تمام فریقین کا احترام کرتی ہے لہٰذا عدالتوں کا بھی احترام کریں۔اس دوران عدالت نے (ن) لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کوآج ہی تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کی تکریم ہونی چاہیے، ایسا نہ ہوکہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو ختم کردے۔اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر رکن اپنی مرضی کریگا توجمہوریت کا فروغ کیسے ہوگا، کسی فرد پرفوکس کرنے کی بجائے سسٹم پرفوکس کیوں نہ کیا جائے،

آرٹیکل 63 اے کے تحت انفرادی نہیں پارٹی کا حق ہوتا ہے، کیا دس 15 ارکان سارے سسٹم کو ڈی ریل کرسکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ انحراف سے بہتر ہے استعفیٰ دیں، اس سے سسٹم بچ جائے گا، استعفیٰ دینے والے کو عوام ووٹ دیں تو وہ دوبارہ آجائیگا، ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا،

آئین ضمیر کے مطابق ووٹ دینے والے کے اقدام کو بھی قبول نہیں کرتا۔معزز جج نے کہا کہ ہمارے کندھے اتنے کمزور نہیں ہیں، ہمارے کندھے آئین پاکستان ہے، تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، عدالت کا کام آئین کا تحفظ اور تشریح کرنا ہے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ درخواست میں کس نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے، عدالت کا پہلا سوال درخواست کے قابل سماعت ہونے کا ہے، آئین کے تحت ذمہ داری ہے کہ آئین کی تشریح کریں۔بعد ازاں عدالت نے ریفرنس پر سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



عمران خان اور گاماں پہلوان


گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…