صدارتی ریفرنس،ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا، سپریم کورٹ

16  مئی‬‮  2022

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے ہیں کہ انحراف سے بہتر ہے استعفیٰ دیں، اس سے سسٹم بچ جائے گا، استعفیٰ دینے والے کو عوام ووٹ دیں تو وہ دوبارہ آجائے گا، ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے

صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی جس دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور (ن) لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے التوا کی درخواست کی جس پر عداالت نے برہمی کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور مخدوم علی خان ایک ہی فریق کے وکلا ہیں، التوا کی درخواستوں کا مطلب ہے کہ حکومت تاخیرکرنا چاہتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے پیرکو دلائل میں معاونت کرنے کی بات خود کی تھی اور مخدوم علی خان کو بھی پیر کو دلائل کیلئے پابند کیا تھا، عدالت کے اوربھی کام ہیں، تین بینچزکے جج اس لارجربینچ کا حصہ ہیں، آرٹیکل 63 اے عوامی مفاد کا اہم ترین ایشو ہے جس کو سن کرجلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اورعوامی مفاد سے متعلق معاملات سننے کیلئے ہروقت تیارہے، عدالت تمام فریقین کا احترام کرتی ہے لہٰذا عدالتوں کا بھی احترام کریں۔اس دوران عدالت نے (ن) لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کوآج ہی تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کی تکریم ہونی چاہیے، ایسا نہ ہوکہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو ختم کردے۔اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہر رکن اپنی مرضی کریگا توجمہوریت کا فروغ کیسے ہوگا، کسی فرد پرفوکس کرنے کی بجائے سسٹم پرفوکس کیوں نہ کیا جائے،

آرٹیکل 63 اے کے تحت انفرادی نہیں پارٹی کا حق ہوتا ہے، کیا دس 15 ارکان سارے سسٹم کو ڈی ریل کرسکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ انحراف سے بہتر ہے استعفیٰ دیں، اس سے سسٹم بچ جائے گا، استعفیٰ دینے والے کو عوام ووٹ دیں تو وہ دوبارہ آجائیگا، ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا،

آئین ضمیر کے مطابق ووٹ دینے والے کے اقدام کو بھی قبول نہیں کرتا۔معزز جج نے کہا کہ ہمارے کندھے اتنے کمزور نہیں ہیں، ہمارے کندھے آئین پاکستان ہے، تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، عدالت کا کام آئین کا تحفظ اور تشریح کرنا ہے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ درخواست میں کس نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے، عدالت کا پہلا سوال درخواست کے قابل سماعت ہونے کا ہے، آئین کے تحت ذمہ داری ہے کہ آئین کی تشریح کریں۔بعد ازاں عدالت نے ریفرنس پر سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…