اسلام آباد، واشنگٹن(آئی ا ین پی، این این آئی ) پاکستان نے امریکا میں جمہوریت سے متعلق مکالمے میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا میں جمہوریت کے عنوان سے مکالمے کا انعقاد کیا گیا، پاکستان سے تین منٹ پر محیط “ریکارڈڈ بیان دینے کا کہا گیا۔
یہ بھی کہا گیا سوال و جواب سیشن میں پاکستان شامل نہیں ہوگا جس پر ہم نے اس مکالمے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم کشیدگی کے قطعی حامی نہیں، جنگیں معاشی بحرانوں سمیت ہمہ قسم کے مضمرات کا باعث ہوتی ہیں اور اس کے اثرات پورے خطے اور دنیا پر مرتب ہوتے ہیں، ملک چھوٹے بڑے ہوتے ہیں مگر خود مختاری ،سالمیت عزیز ہوتی ہے۔دوسری جانب سابق امریکی فوجی سربراہ مائیک میولن نے کہا ہے کہ امریکا واضح طور پر پاکستان سے فاصلہ اختیار کر چکا ہے جبکہ وائٹ ہائوس اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کی سیاست میں امریکا کے ملوث ہونے کے دعوں کو مسترد کر دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ایڈمرل میولن نے کہا کہ یہ کہنا مشکل، بہت مشکل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران ہم واضح طور پر پاکستان سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں اور پاکستان چین کی چھتری کے نیچے جاتا جارہا ہے۔
ایڈمرل مولن اکتوبر 2007 سے ستمبر 2011 تک امریکی فوجی کے سربراہ تھے، جو میموگیٹ تنازع میں بھی نامزد تھے جو کہ ایک یادداشت کے گرد گھومتی ہے، جس کا مقصد ظاہری طور پر پاکستان میں ایک خوفناک فوجی قبضے کو روکنے کے لیے امریکی تعاون حاصل کرنا تھا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کے عالمی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ قربت ان کے لیے بہتر ہے کیونکہ بیجنگ ایسا پڑوسی چاہے گا جو امریکا کے بجائے ان کے قریب ہو۔ان کا مزید کہنا تھا مذکورہ وجوہات کی بنا پر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کچھ وقت سے مشکلات کا شکار ہیں۔
سقوط کابل میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ایڈمرل میولن کا کہنا تھا کہ انہوں نے یقینی طور پر اسے روکنے کے لیے بہت کچھ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ بطور امریکی آرمی چیف میں نے کانگریس کا بتایا تھا کہ پاکستانی خفیہ ادارے افغانستان میں فعال ہیں اور میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ دونوں طرف رابطے ہیں۔