اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی سلیم صافی نے قومی اخبار میں چھپنے والے اپنے کالم ”چور کی داڑھی میں تنکا“ میں لکھا کہ جہاں تک اسلاموفوبیا کا تعلق ہے تو اس کے خلاف موجودہ اسلامی حکمرانوں میں سب سے زیادہ آواز ترکی کے صدر طیب اردوان نے اٹھائی۔کینیڈا اور نیوزی لینڈ کی قیادت بھی اس کے خلاف برسوں سے بول رہی ہے۔
اب اگر امریکہ نے اس بنیاد پر کسی حکومت کے خلاف سازش کرنی ہوتی تو وہ ترکی کے خلاف کرتا۔سعودی عرب امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے تو کیا اس کی خواہش اور فرمائش پر چلنے والے اوآئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس پر امریکہ اتنا برہم ہوگا کہ وہ عمران خان کی حکومت گرانے کی سازش کرے گا؟ہم حکیم سعید کی کتاب میں عمران خان کے بارے میں دعوو?ں سے بھی صرف نظر کرتے ہیں۔ ہم مولانا فضل الرحمٰن کے دعوو?ں اور الزامات کو بھی بھلا دیتے ہیں۔ لیکن اب تو سید خورشید شاہ جیسے بلند قامت سیاستدان نے بھی میرے پروگرام ”جرگہ“ میں یہ دعویٰ کیا کہ امریکی صدر بش سینئر نے بے نظیر بھٹو سے کہا تھا کہ ہمارے بندے (عمران خان) کا خیال رکھنا۔انہو ں نے مزید لکھا کہ عمران خان کی کابینہ وہ واحد کابینہ ہے جس میں امریکہ اور برطانیہ سے آئے ہوئے مشکوک لوگ سب سے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔اگر واقعی امریکہ ان سے اتنا سخت ناراض تھا تو پھر انہوں نے کچھ عرصہ قبل امریکہ اور ایران کے مابین ثالثی کی پیشکش کس بنیاد پر کی تھی؟ امریکہ ناراض ہے اور واقعی ناراض ہے لیکن وہ پاکستانی فوج اور اس کے اداروں سے ناراض ہے۔اس کی دلچسپی کے جو ایشوز (افغانستان، انڈیا اور چین وغیرہ) ہیں ان میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں۔عمران خان ان حالات میں امریکہ اوریورپ کے خلاف بیانات دے کر اصل میں فوج کی مشکلات بڑھانا اور بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔
سلیم صافی نے لکھا کہ امریکی اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں اور ان حالات میں کیا امریکہ کا دماغ خراب ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف سازش کرے؟ ہمیں تو ہر حوالے سے معاملہ الٹ نظر آتا ہے۔میں جانتا ہوں تو اس وقت پاکستان میں اگر کوئی عمران خان کے اقتدار کا سب سے بڑھ کر متمنی ہے تو وہ امریکہ ہے اور اگر کسی ملک کے لیے وہ بوجھ بنے ہوئے ہیں تو وہ چین ہے لیکن چین کا یہ اصول رہا ہے کہ وہ کبھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔