اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے حال ہی میں اعلان کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم، پیٹرول اور بجلی پر سبسڈی کے معاملے پر حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان مذاکرات میں آئی ایم ایف نے غیر اہدافی سبسڈی، ایمنسٹی اسکیم پر سوالات اٹھادئیے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ
اہم پالیسی امور پر تعطل کے پیش نظر دونوں فریقین کے درمیان ورچوئل مذاکرات کے اختتام کے بجائے اس میں پیر تک توسیع کردی گئی ہے، 6 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے ساتویں جائزے پر گفتگو کا آغاز 4 مارچ ہوا تھا۔مذاکرات کا حصہ رہنے والے عہدیدار کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم نے اہم اصلاحات پر حکومت کے ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے کے نقطہ نظر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جو کہ بجٹ پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان نے دسمبر کے آخر تک کے اہداف پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن حالیہ بجٹ کے اقدامات تباہ کن سمت کی جانب جاتے نظر آتے ہیں۔اسلام آباد میں موجود آئی ایم ایف کے نمائندے نے درخواست کے باوجود معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔بجٹ سے متعلق ٹیکس ایمنسٹی، پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی اور بجلی کی قیمت پر عمومی سبسڈی بجٹ کے تین اہم شعبے ہیں۔ریونیو اور اخراجات کے درمیان خلا ہے، رواں مالی سال کے اختتام پر جون تک خسارے کا خلا 25 ارب روپے کے ہدف سے بڑھ کر تقریباً 650 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔آئی ایم ایف مشن نے چھٹے جائزے کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی تیسری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر سوالات اٹھائے ہیں تاکہ نو ماہ سے تعطل کا شکار ایک ارب ڈالر کے قرض کی قسط کو بحال کیا جا سکے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کی جانب سے تحریری بیان میں کہا گیا کہ ’ ہم مزید ٹیکس ایمنسٹی نہ دینے کے اپنے عزم کی توثیق اور نئے ترجیحی ٹیکس یا چھوٹ جاری کرنے کی مشق سے گریز کرتے ہیں۔حکومتی ٹیم نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹارگیٹڈ اور رینگ فینس تھی تاکہ روزگار کے مواقع پیدا اور برآمدات کو بڑھانے کے لیے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کو یقینی بنایا
جاسکے تاہم اس بیان نے پیشگی وعدوں کے سبب آئی ایم ایف کی ٹیم متاثر نہیں کیا اور یہ عمل ’اصولی انحراف‘ کا دفاع کرنے کے حوالے سے حکومتی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔آئی ایم ایف نے پیٹرولیم لیوی میں اضافے کے عزم کے باوجود پیٹرولیم کی قیمتوں میں 10 روپے فی لیٹر کمی پر غیر مقرر کردہ سبسڈیز کی بحالی پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن نے کہا کہ اگر قیمتوں میں یہ کمی کم آمدن اور کمزور طبقے کے افراد کے
لیے کی جاتی تو وہ اس کٹوتی کو جائز قرار دے سکتے تھے لیکن مجموعی کمی اہداف کے مطابق نہیں ہے اور تمام شہریوں کے لیے ہے۔حکومت نے کم قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو قیمتوں میں فرق کے دعوؤں کی ادائیگی کے لیے پہلے مہینے یعنی مارچ کے لیے 20 ارب روپے کی سبسڈی کی منظوری دی ہے۔رواں مالی سال کے 4 ماہ کے لیے پیٹرولیم کی قیمتوں کو برقرار رکھنے کا ابتدائی تخمینہ 70 ارب روپے لگایا گیا
ہے لیکن عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کے باعث یہ اعدادوشمار مشکوک معلوم ہوتے ہیں۔حکومت نے کہا کہ جب تک 30 روپے فی لیٹر تک کا اضافہ نہ ہوجائے ہم پی ڈی ایل میں 8 روپے فی لیٹر اضافہ کریں گے، اور ہم نے مالی سال 2022کے کے لیے پی ڈی ایل کو 4 روپے فی لیٹر فی لیٹر بڑھانے کا عزم کیا ہے،اس کے برعکس پیٹرولیم مصنوعات پر سے لیوی کو یا تو ختم کر دیا گیا ہے یا کچھ روز کے لیے اسے منفی کردیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے بجلی کے نرخوں میں 5 روپے فی یونٹ کمی کی عمومی سبسڈی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جو تقریباً 15 ماہ تک بڑھائے گئے تھے،حکومت نے اس کے مالیاتی اثرات کا تخمینہ 106 سے 136 ارب روپے لگایا ہے،آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ 15 مہینوں میں حاصل ہونے والے اضافے کو ایک ہی جھٹکے میں ختم کر دیا گیا۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ان اقدامات کا مالیاتی اثر بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں کے لحاظ سے تقریباً 250سے300 ارب روپے ہو گا۔ایک اہلکار نے کہا کہ حکومت نے حالیہ توسیعی پالیسی اقدامات کو تبدیل کرنے کا کوئی اشارہ دیا اور نہ ہی فنڈ نے کوئی لچک دکھائی۔پاکستان کو اب تک 6 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام میں سے 3 ارب ڈالر سے زائد رقم موصول ہوچکی ہے، جو 39 ماہ پر محیط ہے اور جو رواں سال ستمبر میں ختم ہوجائیں گے۔