کوئٹہ (آن لائن )وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی برائے پانی، توانائی و قدرتی وسائل سردار وپی ٹی آئی بلوچستان کے صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سرداریار محمد رند نے کہا ہے کہ وہ اپنے اس دعوے پر قائم ہیں کہ ساڑھے 3 ارب روپے میں بلوچستان کی حکومت تبدیل ہوئی اور تین کنٹریکٹرز اور اسلام آباد کی کچھ شخصیات نے عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلی بنایا۔اسلام آباد پاور پالیٹکس کا گھر ہے
جہاں ہمارے مقدر اور نصیبوں کے فیصلے ہوتے ہیں، بلوچستان کے عوام کے ووٹ سے وزیراعلی نہیں بنتاان خیالات کااظہار سردار یار محمد رند نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کا مطلب عمران خان ہے اور اس کے علاوہ پارٹی میں کوئی بھی نہیں ہے، باقی سارے مہرے ہیں، خان صاحب جس کو چاہیں بٹھائیں اور جس کو چاہیں نکالیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ مجھے امید ہے کہ جب آپ اقتدار میں آئیں گے تو ہمیں وہی حقوق دیں گے جو پاکستان کے دیگر صوبوں کو ملتے ہیں اور انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی بلوچستان، بلوچ عوام کی مرضی سے نہیں بلکہ اسلام آباد کی مرضی سے منتخب ہو کر صوبے میں جاتا ہے اور حلف اٹھاتا ہے، جب الیکشن ہوئے تو میرے پاس 34 لوگوں کی اکثریت تھی، لوگ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔معاون خصوصی نے کہا کہ رات میں تین بجے مجھے ترین صاحب کا فون آیا کہ آپ جام صاحب کے حق میں بیٹھ جائیں، میں نے کہا کہ میں کیوں بیٹھوں تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس قومی اسمبلی کے پانچ ووٹ ہیں، اگر آپ ان کے حق میں نہیں بیٹھے تو وہ ووٹ نہیں دیں گے اور خان صاحب وزیراعظم نہیں بنیں گے۔انہوں نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ اگر میرے وزیر اعلی کے امیدوار کے عہدے سے دستبردار ہونے سے عمران خان وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو میرے لیے اس سے بڑی خوشی کوئی نہیں ہوگی۔
عبدالقدوس بزنجو کے وزیر اعلی بننے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان کو اعتماد کا ووٹ دیا اور نہ ان کو سپورٹ کیا، میری ایوان میں کی گئی تقریر اور میڈیا سے کی گئی گفتگو آج بھی ریکارڈ پر ہے۔یار محمد رند نے اپنے سابقہ موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ تین کنٹریکٹرز اور اسلام آباد کی کچھ شخصیات نے عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلی بنایا۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے اس دعوے پر بھی قائم ہوں کہ ساڑھے 3 ارب روپے
میں بلوچستان کی حکومت تبدیل ہوئی لیکن کیا اس سے کوئی فرق پڑا، کیا کسی نے نوٹس کیا۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ بلوچستان میں ایک، ایک ووٹ 7 کروڑ کا بکتا ہے تو وہ آکر کیوں نام نہیں دیتے، وہ اپنے لوگوں کے ذریعے بتا دیں کہ کن کن لوگوں نے اپنا ووٹ بیچا ہے۔معاون خصوصی نے کہا کہ اگر میں نے اپنا ووٹ بیچا ہے تو میں استعفی دینے کے لیے تیار ہوں، اسی پروگرام میں استعفی دوں گا اور ایسی
صورت میں مجھے وہ سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی عوامی نمائندہ اپنی نشست اور اپنا ضمیر نہ بیچے۔انہوں نے کہا کہ میں ساڑھے 3 ارب کی اس ڈیل کا حصہ نہیں تھا لیکن اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ وہاں پر وزارت بکی، وزرا اور محکمے بکے، آتے ہی سیکرٹریز کی بولی لگی کہ کس کو کونسا محکمہ چاہیے، وہاں تو گریڈ 7 بھی بکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عبدالقدوس بزنجو نے ساڑھے 3 ارب خود نہیں پہنچائے بلکہ وہ سہولت کار تھے، وہ پیسے اٹھا کر
انہوں نے اسلام آباد کے مقدس شہر میں پہنچائے، یہ پاور پالیٹکس کا گھر ہے تو یہاں پر ہمارے مقدر اور نصیبوں کے فیصلے ہوتے ہیں، بلوچستان کے عوام کے ووٹ سے وزیراعلی نہیں بنتا۔سردار یار محمد رند نے کہا کہ وزیر اعظم، میڈیا کو کیوں نہیں بتاتے کہ وہ کون کون سے سینیٹر ہیں جو 70، 70 کروڑ روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے ہیں، ایک دفعہ انہیں ٹکٹ دی گئی، پھر ان سے لے لی گئی، پھر اسی پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی نے مل کر ان کو ووٹ دیا اور اس کے بعد وہ گلے میں مفلر پہن کر مشرف با پی ٹی آئی ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب ان لوگوں کے نام کیوں نہیں دیتے، ان کو سزا کیوں نہیں دیتے، ووٹ دینے اور ووٹ خریدنے والوں دونوں کے نام الیکشن کمیشن کو دے کر انہیں نشستوں سے کیوں نہیں ہٹایا جاتا، لیکن میں حیران ہوں کہ ہمارے اوپر الزامات تو لگتے ہیں لیکن ان کے ثبوت ہمیں نہیں ملتے، وہ ثبوت اسلام آباد والوں کے پاس ہیں۔انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد موجودہ سیاسی صورتحال کو بہت خراب قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں پہلے بھی چار، پانچ مرتبہ رکن اسمبلی رہا ہوں لیکن میں نے اس سے قبل اپوزیشن کی اتنی سنجیدہ تحریک عدم اعتماد آج تک نہیں دیکھی۔