نئے نیب قانون سے 100 بڑے کیسز متاثر ہونے کا امکان ٗ 2700 ملزموں کو ریلیف مل سکتا ہے

27  دسمبر‬‮  2021

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) نئے احتساب قانون کے نافذ ہونے سے تقریباً ایک سو ہائی پروفائل کیس متاثر ہوں گے جن میں سابق صدر، موجودہ اور سابق وزرائے اعظم، ارکان پارلیمنٹ اور سینئر بیوروکریٹس کے کیسز شامل ہیں۔ قومی احتساب بیورو (نو ترمیم شدہ) کے آرڈیننس 2021ء کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوگا کہ 2700؍ کے قریب ملزمان (جن میں سے 60؍ فیصد کیخلاف 8272؍

ریفرنس، انوسٹی گیشنز، انکوائریاں اور شکایات درج ہیں) کو نئے نافذ ہونے والے احتساب قانون کے نتیجے میں ریلیف ملے گا یا پھر ان کے معاملات متعلقہ حکام، محکموں یا پھر متعلقہ قانون کے تحت آنے والی عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ روزنامہ جنگ میں زاہد گشکوری کی خبر کے مطابق  سرکاری دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان کیسز، انوسٹی گیشنز اور انکوائریوں کا انجام کیا ہوگا فی الوقت 332؍ ہائی پروفائل یا میگا کیسز نیب کے ریجنل دفاتر میں پراسیس میں ہیں۔ یہ کیسز سابق صدر، 6؍ سابق وزرائے اعظم، 8؍ سابقہ اور موجودہ وزرائے اعلیٰ، 126؍ سابق اور موجودہ وزراء، سینیٹرز، ارکان پارلیمنٹ، ارکان صوبائی اسمبلی، 159؍ سابقہ اور موجودہ بیوروکریٹس کیخلاف اور جعلی اکائونٹس کے کیسز ہیں۔ نیب حکام کا کہنا ہے کہ 1273؍ جاری ریفرنسز میں تقریباً 1300؍ ارب روپے کی خورد برد کرنے کا الزام ہے۔ سرکاری دستاویز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے نیب آرڈیننس کے نفاذ کے حوالے سے صورتحال کو دیکھتے ہوئے نیب انتظامیہ نے اپنے ریجنل دفاتر سے کہا ہے کہ فی الحال

کارروائی کو روک دیا جائے تاوقتیکہ وزارت قانون و انصاف (ایم ایل جے) نئے آرڈیننس کے حوالے سے اپنی تشریح پیش کرے۔ یہ پیشرفت نیب آرڈیننس 1999ء میں ترمیم کے بعد سامنے آئی ہے جس میں خصوصی طور پر نیب قانون کے ان حصوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جن میں لکھا ہے کہ اس آرڈیننس کی شقیں مندرجہ ذیل افراد یا ٹرانزیکشن (لین دین)، تمام وفاقی، صوبائی یا

مقامی ٹیکسیشن، دیگر لیویز یا امپوسٹس پر لاگو نہیں ہوتیں۔‘‘ نیب کی جانب سے اپنے ریجنل دفاتر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ تمام معاملات پر فیصلے کو فی الحال معطل رکھا جائے گا تاوقتیکہ وزارت قانون کی طرف سے کوئی ایڈوائس نہ مل جائے۔ ریجنل بیوروز سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنی رائے جلد از جلد پیش کریں۔ جائزہ لینے سے معلوم ہوا ہے کہ نئے ترمیمی

قانون کے سیکشن چار اور چند دیگر سیکشنز کی وجہ سے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کے کیسز پر اثرات مرتب ہوں گے جن پر پیراگون ہائوسنگ اسکیم میں خرد برد کا الزام ہے کہ انہوں نے اپنی زمین کے 50؍ کنال اراضی کے عوض دو کنال کے 20؍ پلاٹس لیے۔ خواجہ آصف اور ان کے اہل خانہ کیخلاف کیس کا اہم حصہ بھی نئے ترمیمی قانون کے دائرے میں آئے گا۔ نیب نے خواجہ آصف پر

غیر قانونی نجی ہائوسنگ اسکیم ’’کینٹ ویو ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ بنانے کا الزام عائد کیا تھا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے لیڈر علیم خان کو پارک ویو ہائوسنگ اسکیم اور ریور ایج ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملات پر کارروائی کا سامنا تھا۔ نئے قانون کے تحت سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کا کیس بھی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے جن پر آشیانہ ہائوسنگ اسکیم پروجیکٹ کی کنسلٹنسی انجینئرنگ

کنسلٹنسی سروسز پنجاب کو دینے کا الزام ہے۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ بھی اسی کیس میں زیر تفتیش ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کیخلاف نیو یارک کے فلیٹ کے حوالے سے نیب کا ریفرنس بھی انکم ٹیکس کا معاملہ ہے اور اسے الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کیخلاف پاور پلانٹ کی تعمیر کے معاملے میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی

کا الزام ہے۔ یہ معاملہ بھی نئے قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ اسی طرح بلاول زرداری کا معاملہ ہے جن پر ایک کمپنی پارک لین اسٹیٹس کے ذریعے ایک شخص سے زمین خریدنے کا الزام ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کا کیس ہے کہ انہوں نے لاہور گیٹ وے پروجیکٹ اپنے من پسند ٹھیکے دار کو دیدیا۔ اسی طرح سابق وزیراعظم یوسف رضا

گیلانی کیخلاف نیب انوسٹی گیشن ہے کہ انہوں نے غیر قانونی انداز سے تشہیری مہم چلائی۔ نیب سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کیخلاف بھی تحقیقات کر رہا ہے کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو 11.125؍ ملین ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔ نیب پرویز خٹک کیخلاف بھی تحقیقات کر رہا ہے کہ انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہری پور کے قیام

کیلئے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر ایل این جی کیس میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے۔ اس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ پیش کیا تھا کہ انہوں نے اس میں کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا اور ایل این جی ٹرمینل کی شفافیت کے معاملے میں کوئی تنازع نہیں۔ لگتا ہے یہ کیس بھی نئے قانون کے دائرے میں آئے گا۔ احسن اقبال کا کیس بھی

اسی قانون کے دائرے میں آنے کا امکان ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ بیورو نے یہ الزام نہیں لگایا کہ احسن اقبال نے کوئی مالی فائدہ اٹھایا ہے۔ اسی طرح شوکت ترین کا بھی ایک کیس ہے کہ انہوں نے رینٹل پاور پروجیکٹس میں رقوم جاری کرکے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ کیسز کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کئی لوگوں کو ذرائع سے زیادہ آمدنی کے کیسز کا سامنا ہے جو نئے

قانون کے دائرے میں نہیں آتے۔ باخبر عہدیداروں کے مطابق، نئے قانون کی روشنی میں 5462؍ شکایات جو مختلف ریجنل دفاتر میں پراسیس ہو رہی ہیں، انہیں ایف بی آر، اے سی ای، ایف آئی اے، ایس بی پی اور صوبائی محکموں کو بھیجا جا سکتا ہے۔ فی الوقت 2036؍ شکایات سکھر، 152؍ ملتان، 1345؍ راولپنڈی، 42؍ بلوچستان، 217؍ کے پی، 1482؍ کراچی اور 188؍ نیب کے لاہور

ریجنل آفس میں پراسیس میں ہیں۔ تاہم، نیب کا پراسیکوشن ونگ وزارت قانون سے ایڈوائس موصول ہونے کے بعد تمام کیسز کی ایک حتمی فہرست مرتب کرے گا جس کے حوالے سے اپڈیٹ اسٹیٹس آئندہ ماہ جاری ہوگا۔ نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم نئے ترمیمی آرڈیننس پر اس کی روح کے تحت عمل کریں گے۔ تاہم، ترجمان نوازش علی عاصم اور نیب کے پراسیکوٹر جنرل اصغر علی نے جاری نمایاں کیسز، انکوائریز اور انوسٹی گیشنز کی سرکاری تفصیلات شیئر نہیں کیں۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…