جمعرات‬‮ ، 12 جون‬‮ 2025 

افغانستان کے اندر مصروف کار دہشت گرد تنظیمیں عالمی امن واستحکام کے لئے خطرہ ہیں،شاہ محمو د قریشی

datetime 27  اکتوبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

تہران (این این آئی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کے اندر مصروف کار دہشت گرد تنظیمیں عالمی امن واستحکام کے لئے خطرہ ہیں،افغانستان سیاسی استحکام کی طرف عبوری دور سے گزر رہا ہے، افغانستان میں عبوری کابینہ میں توسیع راست اقدام ہے ، افغانستان میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے سکول دوبارہ کھلونے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے،

نازک مرحلے پر تمام فریقین کو ماضی کی غلطیوں کے اعادہ سے بچنا ہوگا، مثبت روابط کو برقرار رکھتے ہوئے افغان عوام کے ساتھ یک جہتی ظاہر کرنا ہوگی،ہماری اجتماعی کوششیں معاشی ابتری کو روک سکتی ہیں،معاشی انہدام سے عدم استحکام، تنازعات پیدا ہوں گے ، ہمسایہ ممالک اور دیگر خطوں کو مہاجرین کی بڑی یلغار کا سامنا کرنا پڑے گا،ہمیں ایک ایسے افغانستان کی مدد کرنا ہوگی جو علاقائی استحکام اور رابطے جوڑنے کے فروغ میں مثبت حصہ ڈالے،خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے یہ کام کرنا ہوگا۔ بدھ کو یہاں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے دوسرے وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی اس دوسری نشست کی میزبانی پر میں ایران کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ میں افغانستان کے دیگر دوستوں یعنی محترم ساتھی وزرائے خارجہ کا بھی خیرمقدم کرنا چاہوں گا،خاص طورپر وزیر خارجہ لائوروف کو اس عمل کا حصہ بننے پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ ہماری گزارشات افغانستان پر ہمارے موقف کے نئے دریچے کھولنے میں مددگار ثابت ہوں گی اور آگے بڑھنے کی متفقہ راہیں کھولیں گی۔ انہوںنے کہاکہ ہم سب نے 15 اگست سے افغانستان میں اہم پیش رفت دیکھی ہیں ،یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ تبدیلی خوں ریزی کے بغیر ہوئی اور کسی انتقام وبدلہ کے رویوں سے بچاگیا، خوش قسمتی سے مہاجرین کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی نہیں ہوئی۔انہوںنے کہاکہ اگست 2021 میں ایران، تاجکستان اور ازبکستان کے میرے دورے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے سے متعلق درپیش تحفظات اور مسائل کی نشاندہی میں مددگار ثابت ہوئے۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے آخر کار جنگ کے خاتمے سے سامنے آنے والے مواقعوں اور ایک پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کے لئے راہ ہموار کرنے کا عزم کیا جو خطے کی معاشی ترقی اور اسے باہم جوڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ،پاکستان نے افغانستان کے چھ ہمسایوں کا اجلاس شروع کرنے کے خیال کو پیش کیا تاکہ خطے کی سطح پر ایک مشترکہ سوچ اپنائی جائے۔ ،میں تمام ساتھیوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے اس خیال کا خیرمقدم کیا اور مجوزہ اجلاس میں شرکت سے اتفاق کیا۔ ۔ انہوںنے کہاکہ آٹھ ستمبر کو ہمارے اجلاس کا مشترکہ بیان جاری ہوا جس نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے مستقبل میں شراکتی عمل کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کی ،مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ اجلاس قبل ازیں ہونے والی ہماری معروضات اور غوروخوض کو آگے بڑھانے کا باعث بنے گا اور ایک پرامن ومستحکم افغانستان اور خطے کے لئے ہماری اجتماعی کوششوں کو تقویت دینے میں مدد گار ہوگا۔انہوںنے کہاکہ افغانستان کے

تناظر میں سیاسی استحکام، معاشی پائیداری اور انسداد دہشت گردی نہایت اہم اور کلیدی نوعیت کے نکات ہیں۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان سیاسی استحکام کی طرف عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ افغانستان میں عبوری کابینہ میں توسیع راست اقدام ہے انہوںنے کہاکہ ہم کابل میں زیادہ سے زیادہ اجتماعیت کے حامل عبوری نظام کے قیام کی سوچ اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے آرہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان کثیرالنسلی معاشرے پر مشتمل ہے۔ ملک کے مستقبل میں وہاں کے ہر طبقے کا ایک کلیدی مفاد،حصہ

اور کردار ہے۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے اس حقیقت کا احترام ناگزیر ہے اور سیاسی نظام میں اس کی جھلک ہونی چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ تمام افغانوں کے حقوق کا مکمل احترام ہو۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے سکول دوبارہ کھلونے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ افغان معاشرے کی ترقی میں خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اْن کے لئے مواقعوں کی فراہمی جاری رکھنے سے افغانستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں اضافہ ہو گاانہوںنے کہاکہ عالمی رابطوں کا جہاں تک تعلق ہے تو پاکستان چین اور روس کے نمائندگان خصوصی کے

دورے کابل میں نئی انتظامیہ کو ہمارے نکتہ نظر سے آگاہ کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم روس، چین اور پاکستان کے نمائندگان خصوصی کے اجلاس اور گزشتہ ہفتے میں ماسکو فارمیٹ اجلاس کی میزبانی پر روس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس سے افغان عبوری نظام کو بھی عالمی برادری سے رابطوں کا موقع ملا ہے۔ انہوںنے کہاکہ میں نے گزشتہ ہفتے دو واضح اہداف کے لئے کابل کا دورہ کیا:تاکہ اْن کو سنا جائے اور انہیں اپنے خیالات اور سوچ سے آگاہ کیاجائے۔

میں نے اْنہیں عالمی برادری کے کلیدی پیغام اور بنیادی توقعات سے متعلق متوجہ اور گوش براہ پایا۔ انہوںنے کہاکہ میں نے ان کی طرف سے عالمی برادری کے ساتھ تعمیری روابط کی استواری کی خواہش کے اظہار پر مزید اقدامات کرنے کی اہمیت پر زور دیا ،یہ امر ناگزیر ہے کہ تنازعات کو دوبارہ سر اٹھانے سے بچایا جائے اور افغانستان کے اندر اور باہر سے خرابی پیدا کرنے والوں کے عزائم کو ناکام بنایا جائے،اس نازک مرحلے پر تمام فریقین کو ماضی کی غلطیوں کے اعادہ سے بچنا ہوگا،

مثبت روابط کو برقرار رکھتے ہوئے افغان عوام کے ساتھ یک جہتی ظاہر کرنا ہوگی،اس موقع پر ایک دوسرا اہم پہلو افغانستان میں معاشی پائیداری کا حصول ہے۔انہوںنے کہاکہ افغانستان داخلی وخارجی دونوں وجوہات کی بناء پر سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ داخلی سطح پر افغانستان میں گزشتہ دو سال سے شدید قحط جاری ہے، شدید مہنگائی نے اس صورتحال کو مزید ابتر بنادیاہے۔ انہوںنے کہاکہ خارجہ سطح پر کابل میں طالبان کے ٹیک اوور کے بعد بڑے عطیات دینے والوں نے افغان حکومت کی

مالی مدد بند کردی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ عطیات دینے والے افغانستان کے بجٹ کا تقریبا 70 فیصد پورا کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ غیرملکی مدد کے اچانک بند ہوجانے سے ایک بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے، اس دوران بینک بھی معمول کے مطابق کام نہیں کررہے۔ انہوںنے کہاکہ تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 90 فیصد سے زائد افغان آبادی اگلے سال خط افلاس سے نیچے جاسکتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ

اطلاعات کے مطابق افغان معیشت پہلے ہی 30فیصد سکڑ چکی ہے،یہ تمام عوامل مل کر ایک حادثے اور سانحے کا بھرپور سامان مہیا کرتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اپنے حصے کے طورپر پاکستان صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے اپنے تئیں پوری کوشش کررہا ہے، ہنگامی بنیادوں پر خوراک اور ادویات کی افغانستان کو فراہمی جاری ہے۔ انہوںنے کہاکہ زمین اور فضاء سے افغانستان کو انسانی ہمدردی کے تحت عالمی امدادی سامان کی فراہمی وترسیل میں بھی ہم سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ انہوںنے

کہاکہ افغانستان سے درآمدات میں سہولت کے لئے ہم نے افغان مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹیز پر نظر ثانی کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم بہت سارے ممالک کی جانب سے افغانستان میں معاشی استحکام کے حصول کے لئے دوطرفہ اعانت کی فراہمی کو سراہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ کی جانب سے امداد کی اپیل پر 1.2 ارب ڈالر سے زائد کے امداد کے وعدوں کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں تاہم یہ وعدے

تاحال عملی شکل اختیار نہیں کرسکے ۔انہوںنے کہاکہ سردیوں کی آمد نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے،اچھے ارادوں کو عملی اقدامات میں سمونے کی ضرورت ہے تاکہ افغانوں کی بروقت مدد ممکن ہوسکے۔ انہوںنے کہاکہ نہایت ضروری ہے کہ افغانستان کے منجمند اثاثوں تک اسے رسائی دی جائے تاکہ معاشی ابتری سے بچاجاسکے۔ انہوںنے کہاکہ ہماری اجتماعی کوششیں معاشی ابتری کو روک سکتی ہیں،معاشی انہدام سے عدم استحکام، تنازعات پیدا ہوں گے جبکہ ہمسایہ ممالک اور دیگر

خطوں کو مہاجرین کی بڑی یلغار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوںنے کہاکہ تیسرا اہم پہلو انسداد دہشت گردی ہے، قندوز اور کندھار میں مساجد میں حالیہ حملے دہشت گرد عناصر کے خلاف لڑنے کے معاملے کی یاد دہانی ہے۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان کے اندر مصروف کار دہشت گرد تنظیمیں عالمی امن واستحکام کے لئے خطرہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ یہ اہم ہے کہ ہم دہشت گرد عناصر سے ہوشیار رہیں جو

افغانستان میں امن کی واپسی کے خلاف کام کررہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ افغان عبوری حکومت یقینی بنائے کہ ایسے عناصر کے لئے وہاں کوئی محفوظ ٹھکانہ نہ رہے اور افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہ ہو۔ انہوںنے کہاکہ ہم امید کرتے ہیں کہ طالبان وہ تمام ضروری اقدامات کریں گے جو عالمی برادری کی اہم ترین توقعات کو پورا کریں۔ انہوںنے کہاکہ سلامتی سے

متعلق تحفظات وخدشات کو طالبان اور دنیا میں استواری تعلقات کے معیار میں ایک اہم اور فیصلہ کن جزو کی حیثیت حاصل ہے انہوںنے کہاکہ ہمیں ایک ایسے افغانستان کی مدد کرنا ہوگی جو علاقائی استحکام اور رابطے جوڑنے کے فروغ میں مثبت حصہ ڈالے۔ خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے یہ کام کرنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ پرامن، متحد اور خوش حال افغانستان کا ہمارا مشترکہ مقصد،

صرف اسی صورت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب ہم ہاتھ ملا کر چلیں اور افغانستان کی معاونت کریں،اس مقصد کے حصول کیلئے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ طالبان کو قائل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے کہ اس عمل میں رعایتوں کے ساتھ مزید اقدامات کریں،عالمی برادری پر زور دیتے رہنا چاہئے کہ مثبت رابطے جاری رکھے اور انسانی ہمدردی کے تحت مدد کی فراہمی کو تیز کیاجائے،انسانی ہمدردی کے تحت زیادہ سے زیادہ تعداد میں افغانوں تک مدد کی فراہمی کے ضمن میں ہمارے باہمی اشتراک عمل میں

اضافہ کیاجائے ،انفرادی واجتماعی، بامعنی معاشی سرگرمیوں کو یقینی بنایاجائے، ترقیاتی عمل میں اعانت کی جائے اور پائیدار افغان معیشت قائم کرنے کے لئے مدد فراہم کی جائے،سرحدی گزر گاہوں پر مشترکہ پالیسی کے لئے کورونا کا ڈیٹا ایک دوسرے کو فراہم کیاجائے،سیاسی روابط، معاشی یکجائی اور خطے کو جوڑنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے طویل المدتی خاکہ وضع کیاجائے،کلیدی عالمی کرداروں کے ساتھ مفید اشتراک عمل استوار کرنے کے امکانات تلاش کئے جائیں تاکہ افغانستان کی تعمیر نو اور معاشی ترقی کے لئے مدد حاصل کی جاسکے۔ انہوںنے کہاکہ ہم سب کے لئے ناکامی کوئی آپشن نہیں !۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیان کی قدیم مسجد


ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…