دوشنبے (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان کو افغانستان میں کیے گئے وعدوں کو پورے اور عالمی برادری کو جنگ زدہ ملک کی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، انسانی بحران کو روکنا اور معاشی بحران یکساں طور پر فوری ترجیحات ہیں،افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کو بالآخر ختم کرنے کا ایک نادر موقع ہے، اس لمحے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے
،نازک موڑ پر منفی باتیں پھیلانا یا پروپیگنڈے میں ملوث ہونا دانشمندی نہیں ہوگی،یہ صرف امن کے امکانات کو کمزور کرنے کا کام کرے گا،ہمیں کووڈ 19 وبائی مرض کے منفی معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنی اجتماعی کوششوں کو بھی مضبوط کرنا چاہیے، مسئلہ کشمیراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، ہم آزاد خودمختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ جمعہ کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں 20 ویں شنگھائی تعاون تنظیم کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ (ایس سی او سی ایچ ایس) کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے ۔اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔افغانستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران نے کہا کہ طالبان کے قبضے اور غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک نئی حقیقت سامنے آئی۔انہوںنے کہاکہ یہ سب کچھ خونریزی، خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر ہجرت کے بغیر ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان میں دوبارہ کوئی تنازع نہ ہو اور سیکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔وزیر اعظم نے کہا کہ انسانی بحران کو روکنا اور معاشی بحران ‘یکساں طور پر فوری ترجیحات’ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سابقہ حکومت غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی اور اسے ختم کرنا معاشی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو انسانی امداد کے لیے مدد کو متحرک کرنے پر سراہا اور کہا کہ پاکستان بھی انخلا کی کوششوں میں مدد فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ عالمی برادری کی مثبت مصروفیت انتہائی اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کو بالآخر ختم کرنے کا ایک نادر موقع ہے، اس لمحے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس نازک موڑ پر منفی باتیں پھیلانا یا پروپیگنڈے میں ملوث ہونا دانشمندی نہیں ہوگی،یہ صرف امن کے امکانات کو کمزور کرنے کا کام کرے گا۔ایس سی او اجلاس کے مقام نوروز پیلس آمد پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن نے وزیراعظم کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔وزیر اعظم نے اس بات پر بھی
روشنی ڈالی کہ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام بالآخر خطے کو فائدہ پہنچائے گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنی توجہ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر منتقل کر دی ہے۔انہوںنے کہاکہ ہمارے نئے معاشی تحفظ کے نمونے کے تین بنیادی ستون ہیں، امن ، ترقیاتی شراکت داری اور رابطہ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے وسطی ایشیا میں اپنے بہت سے شراکت داروں کے لیے سمندر کا مختصر ترین راستہ پیش کیا۔انہوں نے گزشتہ جولائی میں تاشقند میں علاقائی رابطے پر ایک کانفرنس کی میزبانی کرنے پر ازبکستان کے صدر کی تعریف کی۔انہوںنے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس سی او خطے میں ریل، سڑک، سمندری اور ہوائی روابط کا جال بچھانے سے تجارت، توانائی کے بہاؤ اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلے
کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔وزیر اعظم نے ایس سی او سربراہی اجلاس میں آگے بڑھنے کے لیے پانچ نکاتی راستے کی تجویز پیش کی۔انہوں نے علاقائی ریاستوں پر زور دیا کہ وہ مؤثر کثیر الجہتی نظام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں بشمول ریاستوں کی مساوات اور خودمختاری اور عوام کے حق خود ارادیت، کی حمایت کی تصدیق کریں۔انہوںنے کہاکہ ہمیں کووڈ 19 وبائی مرض کے منفی معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنی اجتماعی کوششوں کو بھی مضبوط کرنا چاہیے۔انہوں نے افغانستان میں
صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مربوط انداز اپنانے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں علاقائی رابطے کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہیے اور ان کے بااختیار بنانے کے تمام ممکنہ راستوں کو تلاش کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ رابطے خطے اور اس سے آگے ترقی اور خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔انہوںنے ایک بار پھر افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان نے
دہشتگردی کی جنگ میں 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے،ہماری معیشت کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نقصان پہنچا ۔ وزیراعظم عمران ِخان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کیلئے بڑا چیلنج ہے، ہم نے بہتر ماحول کے فروغ کیلئے شجرکاری مہم شروع کی ہے،ہم نے ملک کے ہر اس حصے میں پودے لگائے جہاں سبزہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ شجرکاری مہم کو دنیا کے مختلف ممالک میں سراہا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ افغانستان کو انسانی بحران،
خوراک، بنیادی اشیاودیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آزاد خودمختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ تجارت، سرمایہ کاری اور روابط کے فروغ کے لئے ایس سی او ایک اہم پلیٹ فارم ہے، مواصلاتی رابطوں سے خطے میں مثبت تبدیلی آئیگی۔ وزیراعظم نے کورونا وبا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عالمی معیشتیں متاثر ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی دوسر ااہم چیلنج ہے جو دنیا کو درپیش ہے ،پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے بلیئن ٹری منصوبہ شروع کیا ہے۔