کابل(این این آئی)طالبان رہنما اور پاکستان میں سابق طالبان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے کہا ہے کہ اپنے سخت گیر دور کو دہرانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ طالبان اپنے عہد کی پاسداری کررہے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا تھاکہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم جاری ہے اور وہ کام پر بھی جاسکتی ہیں۔انہوں نے افغانستان کی صورتحال سے متعلق مزید کہا کہ طالبان کسی
سے کوئی بدلہ نہیں لے رہے۔ قانونی انداز میں کابل ایئرپورٹ جانے والوں کو طالبان نہیں روک رہے۔دوسری جانب رواں ماہ اگست کے آخر میں امریکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی کی ڈیڈ لائن مقرر ہے اورامریکی صدر جوبائیڈن مقررہ تاریخ تک افغانستان سے انخلاکے اعلان پرقائم ہیں۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے خوف سے ملک چھوڑنے کے خواہش مند ہزاروں افغانیوں کو نہیں نکالا جاسکے گا اور وہ حالات یا پھر طالبان کے رحم وکرم پر رہ جائیں گے۔ہزاروں افغانیوں کو بیرون ملک منتقل نہ کیے جانے پر امریکی خفیہ اداروں بالخصوص سی آئی اے میں مایوسی اور ناراضگی پائی جا رہی ہے۔امریکی خفیہ ایجنسی کے ایک سابق اہلکارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لوگ ناراض اور بیزار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جب میں سوچتا ہوں کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے افغانی جوہمارے ساتھ رہے پیچھے رہ گئے ہیں تو میرے ہوش اڑ جاتے ہیں۔میں سوچتا ہوں کہ ان کا مستقبل کیا گیا اور وہ زندگی کیسے جئیں گے۔داخلی سلامتی کے دو سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ وزارت داخلہ کے حکام وزارت خارجہ پر برہم ہیں۔
کیونکہ وزارت خارجہ نے امیگریشن ویزا کے خصوصی درخواست گزاروں کے لیے جانچ کے عمل میں کوئی تیزی نہیں دکھائی۔داخلی سلامتی کے عہدیداروں نے کہا کہ محکمہ خارجہ کے ہم عہدیداروں نے جلد کارروائی نہیں کی کیونکہ وہ افغان صدر اشرف غنی کے جانے سے پہلے بڑے پیمانے پر انخلا شروع کرنے سے گریزاں تھے۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ اگر لوگوں کی زیادہ تعداد کو بیرون ملک نکالا
جاتا تو یہ افغان قیادت پرعدم اعتماد کا اظہار ہوتا۔سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جان برینن نے کہا کہ سی آئی اے کے افسران افغان باشندوں کے لیے اخلاقی اور ذاتی ذمہ داری کا حقیقی احساس محسوس کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے ان افغانیوں کی مدد اور ان کی تربیت کی ہے۔دوسری جانب فوجی حکام کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی غیر یقینی صورتحال سے بائیڈن کے پاس فوج کے قیام میں توسیع کا کوئی اچھا آپشن نہیں چھوڑا۔