اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی میں پاس کیے جانے والے 2021-22ء کے بجٹ میں 20؍ سے 22؍ گریڈ کے ایسے افسران کیلئے تنخواہوں میں 35؍ فیصد اضافے کی بھی منظوری دیدی گئی جنہیں کوئی اضافی الائونس نہیں ملتا اور انہیں تنخواہوں کے فرق میں کمی لانے کا وہ الائونس (ڈسپیرٹی الائونس) بھی نہیں دیا گیا تھا جو گریڈ ایک سے 19؍ گریڈ کے
ملازمین کو رواں سال مارچ میں دیا گیا تھا۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق افسران کی اس مخصوص کیٹگری کو وہ دس فیصد اضافہ ملا ہے جو بجٹ میں تمام سرکاری ملازمین کو دیا گیا ہے اور ساتھ ہی انہیں 25؍ فیصد ڈسپیرٹی ریڈکشن الائونس بھی دیا گیا ہے جو انہیں مارچ میں نہیں دیا گیا تھا۔ مارچ میں حکومت نے سرکاری ملازمین کے احتجاج کے بعد، گریڈ ایک سے 19؍ تک کے ملازمین کو 25؍ فیصد ڈسپیرٹی الائونس دینے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بجٹ میں دس فیصد ایڈ ہاک الائونس دیا جائے گا جبکہ اپریل 2021ء سے ڈسپیرٹی ریڈکشن الائونس دیا جائے گا۔ بجٹ تقریر میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی تھی کہ ڈسپیرٹی ریڈکشن الائونس 20؍ سے 22؍ گریڈ کے ملازمین کو بھی دیا جائے گا لیکن اس مخصوص مقصد کیلئے اب رقم مختص کر دی گئی ہے جبکہ اسے قومی اسمبلی سے منظور بھی کرا لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، کابینہ پہلے ہی یہ الائونس اِن افسران کو دینے کی منظوری دے چکی تھی۔ اس سے قومی خزانے پر 40؍ کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا جس کی منظوری قومی اسمبلی نے دی ہے۔ 3؍ مارچ 2021ء کو
جاری کردہ نوٹیفکیشن میں ڈسپیرٹی ریڈکشن الائونس کی منظوری کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس اعلان کے تحت 2017ء کے بنیادی تنخواہ کے اسکیل کا 25؍ فیصد حصہ الائونس کی صورت میں یکم مارچ 2021ء سے دیا جائے گا۔ کہا گیا تھا کہ یہ الائونس گریڈ ایک سے 19؍ تک کے وفاقی حکومت کے ملازمین (بشمول وفاقی سیکریٹریٹ اور منسلک محکمے) کیلئے ہوگا جنہیں پہلے بنیادی تنخواہ
(منجمد یا غیر منجمد) کے مساوی یا 100؍ فیصد زائد کوئی اضافی الائونس یا الائونسز نہیں دیے گئے اور چند شرائط کے ساتھ کوئی کارکردگی الائونس بھی نہیں دیا گیا۔ لیکن اب یہ الائونس 20؍ سے 22؍ گریڈ کے ملازمین کو بھی دیدیا گیا ہے جنہیں ماضی میں کوئی اضافی الائونس نہیں دیا گیا۔ ماضی میں وقتاً فوقتاً ملازمین کی مختلف کیٹگریز (جن کا
تعلق سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ایف آئی اے، ایف بی آر، نیب، نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی، پی ایم آفس، صدارتی سیکریٹریٹ وغیرہ سے ہے) کو اضافے دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ ملازمین دیگر محکموں میں کام کرنے والے ملازمین کے مقابلے میں بہت زیادہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ ملازمین کو دیے گئے ان خصوصی اضافوں کی وجہ سے بنیادی تنخواہوں کے اسکیلز اور نظام
خراب ہو چکا ہے اور ایسے ملازمین کیلئے دل کا درد بن چکا ہے جنہیں ایسے بھاری اضافے نہیں دیے گئے۔ تنخواہوں کے نظام میں خرابی کا عالم یہ ہے کہ صوبائی محکموں میں کام کرنے والے سیکریٹریٹز، بالخصوص پنجاب اور کے پی، کی تنخواہیں وفاقی حکومت میں کام کرنے والے سینئر سیکریٹریز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اگرچہ اب حکومت نے ایسے وفاقی ملازمین کو بھی 25؍ فیصد اضافہ دیدیا ہے جو ’’پہلے نہیں ملا‘‘ (Have Nots) کی کیٹگری میں آتے ہیں، لیکن اب بھی تنخواہوں کا فرق بہت زیادہ ہے اور جو ملازمین بااثر اداروں میں کام کر رہے ہیں وہ اب بھی عام سرکاری ملازمین کے مقابلے میں بہت زیادہ تنخواہیں لے رہے ہیں۔ یہ معاملہ پے اینڈ پنشن کمیشن کو بھی بھیجا گیا ہے۔