اسلام آباد (این این آئی) پاکستان اور آئی ایم کے درمیان چھٹے اقتصادی جائزہ مذاکرات بغیر نتیجہ ملتوی ہوگئے۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ غریبوں پر بوجھ نہیں ڈال سکتے، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کا ستمبر میں پھر جائز لے گاآئی ایم ایف اگلے دو سے تین ماہ کی
کارکردگی مانیٹر کرے گا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے اگلی قسط کا حصول بھی تاخیر کا شکار ہوگیا۔ اس طرح ورلڈ بینک، ایشین بینک کے بعد آئی ایم ایف نے بھی قرضے کی قسط روک لی ہے، دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ کہ ڈالرختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، آئی ایم ایف اس بار پاکستان کے ساتھ فرینڈلی نہیں تھا، اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی، آئی ایم ایف نے شرح سود 13.25 فیصد تک لے جانے کا مطالبہ کیا، اس سے ایک سال میں قرضوں کی لاگت 1400 ارب روپے بڑھ گئی، شرح تبادلہ بھی 168 تک چلاگیا، ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری کا فیصلہ وزیر خزانہ کی سطح پر ہوگا، پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوگا جو ٹیکس نہیں دیں گے تو ان کے خلاف ایکشن لیں گے، ایف بی آر کی طرف سے دھمکائے جانے کے اختیارات کی شق ختم کردیں گے،وزیر قانون سے کہا ہے کہ گرفتاری کی شق کو تبدیل کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ سینیٹ کی جانب سے سفارشات مرتب کرنے کیلئے ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ چیئرمین
کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ ملک اور قوم کی بہتری ہماری اولین ترجیحی ہونی چاہئے۔ ملک میں دو ملین روزگار کے مواقع مہیا کرنا مشکل کام نہیں۔تاجروں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا چاہئے تا کہ و ہ ٹیکس دیں اور اس کے بدلے مراعات بھی دی جائیں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کسٹم ایکٹ 1969 اورسیلز ٹیکس
میں تجویز کردہ ترامیم کا جائزہ لیا گیا۔ ممبر کسٹمز ایف بی آرنے کمیٹی کو بتایا کہ کسٹم ایکٹ کی شق 2 میں ترمیم کی جارہی ہے۔کمیٹی کو ترمیم کے اغراض ومقاصد سے آگاہ کیا گیا۔کمیٹی نے کسٹم ایکٹ ماسٹر بل آف لیڈنگ کی شق متفقہ طور پر منظور کرلی۔اراکین کمیٹی نے کہا کہ درآمد شدہ مال کے ساتھ ساری تفصیل ہوتی ہے کہ مال کیا
ہے اور کہاں سے آ رہا ہے۔جس ملک پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگی ہوئی ہے وہاں سے مال کی درآمد بند ہو جائے گی۔ اس اقدام سے کاروبار میں آسانی ہو گی کیونکہ اب اس کے طلب کرنے پر فراہمی میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔سمگلنگ کی روک تھام کیلئے فنانس بل 2021 میں ترمیم کا جائزہ لیا گیا۔ ممبر کسٹمز ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا
کہ سمگلنگ کا جرم بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے جرمانہ کی رقم بڑھائی جارہی ہے۔کسی بھی گاڑی سے سمگلنگ کی اشیاء پکڑے جانے پہلی دفعہ 1 لاکھ روپے جرمانہ عائد ہوگا۔دوسری دفعہ پکڑے جانے پر 5 لاکھ، تیسری دفعہ 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد ہوگا۔چوتھی دفعہ پکڑے جانے پر تمام اشیاء ضبط اور ویبوکل آئی ڈی بلاک کی
جائے گی۔کمیٹی نے سمگلنگ کی روک تھام کیلئے مزید سختی کی ہدایت کردی۔کمیٹی نے فنانس بل کی شق 156 میں ترمیم کی منظوری دیدی۔ ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں آن لائن کاروبار کا سالانہ حجم 77 ارب روپے ہے۔ تاہم آن لائن اشیاء کی فروخت پر سیلز ٹیکس ادا نہیں کیا جارہا ہے۔آن لائن کاروبار سے 7 سے 11
ارب روپے ٹیکس وصولی کا تخمینہ ہے۔ٹیکس وصولی کا حجم 20 ارب روپے تک بھی جا سکتا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت جب آئی تو گروتھ کے باوجود مسائل بہت زیادہ تھے۔ کرنٹ اکاونٹ اکاونٹ خسارہ 19 سے 20 ارب ڈالر تھا۔مجموعی مالی گیپ 28 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ڈالر ختم ہونے کے
باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔اب بھی 25 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ کرنٹ اکاونٹ سرپلس پر آچکا ہے اور 2.1 فیصد گروتھ کے ہدف کے مقابلے شرح نمو 3.94 فیصد تک پہنچ گئی۔ وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین نے بتایا کہ حکومتی اقدامات سے زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ لارج اسکیل
انڈسٹری کی پیداوار میں 9 فیصد اضافہ ہوا اور اس مالی سال معاشی شرح نمو 4 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ہمیں سالانہ 20 لاکھ روزگار کے مواقع درکار ہیں۔ شہری علاقوں میں 20 لاکھ روپے کا قرضہ 5 سے 6 فیصد شرح سود دیں گے۔پاکستانی شہریوں کو صحت کارڈ بھی دیں گے۔زرعی شعبہ ہماری اولین ترجیح ہے، ہم خوراک کی قلت
کا شکار ہیں۔دالیں، گھی سمیت ہر چیز درآمد ہو رہی ہیں۔ یہ ساری چیزیں عام آدمی کو متاثر کرتی ہیں۔شوکت ترین کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف نے شرح سود 13.25 فیصد تک لے جانے کا مطالبہ کیا، اس سے ایک سال میں قرضوں کی لاگت 1400 ارب روپے بڑھ گئی، شرح تبادلہ بھی 168 تک چلاگیا، غیرملکی قرضہ کی لاگت بڑھ گئی، بجلی اور
گیس کے ٹیرف بھی بڑھا دیے گئے، اس سے مہنگائی بڑھی اور انڈسٹری پر بھی منفی اثر پڑا، اس سے معیشت سست روی کا شکار ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈالرختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، آئی ایم ایف اس بار پاکستان کے ساتھ فرینڈلی نہیں تھا، اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی۔ ٹیکس نادہندہ کی
گرفتاری کے حوالے سے زیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس نادہندگان کی گرفتاری کا فیصلہ وزیر خزانہ کی سطح پر ہوگا، پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوگا جو ٹیکس نہیں دیں گے تو ان کے خلاف ایکشن لیں گے۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی طرف سے دھمکائے جانے کے اختیارات کی شق ختم کردیں گے اور وزیر
قانون سے کہا ہے کہ گرفتاری کی شق کو تبدیل کریں۔قائمہ کمیٹی نے اجلاس میں کسٹم ایکٹ1969 اور سیلز ٹیکس کے حوالے سے تجاویز کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ قائمہ کمیٹی نے کھانے پینے کی ایمپورٹ اشیا ء، پلانٹ، مشینری، پولٹری فیڈ، دودھ، سولر لیمپ کے حوالے سے ڈیوٹی بڑھانے کی تجاویز کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ قائمہ
کمیٹی کے اراکین نے کہا کہ وہ اشیاء جن کا براہ راست عام آدمی سے تعلق بنتا ہے ان پر ڈیوٹی نہ بڑھائی جائے تاکہ عام آدمی پر بوجھ نہ بڑھ سکے۔قائمہ کمیٹی نے فاٹا اور پاٹا میں ایف ای ڈی کے حوالے سے بھی دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور تجاویز کو فی الحال موخر کر دیا۔بچوں کے امپورٹ دودھ پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز
کو بھی مسترد کر دیا گیا۔قائمہ کمیٹی نے جیولری پر ٹیکس تجاویز کو بھی دوبارہ دیکھنے کا فیصلہ کیا۔سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ ایسی کسی تجویز کی حمائت نہیں کی جائے گی جس پر عام آدمی پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ جائے۔قائمہ کمیٹی نے زرعی ایمپورٹ ساز وسامان پر بھی ڈیوٹی 7 سے17 فیصد کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ایل
این جی اور آر این جی کے حوالے سے ڈیوٹی12 سے17 فیصد کرنے کے حوالے سے بھی تجویز کا دوباہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی نے الیکٹرک موٹر پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کرنے کی تجویز کو منظور کر لیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 850 سی سی موٹر کار پر سیلز ٹیکس17 فیصد سے کم کر کے
12.5 فیصد کیا جارہا ہے۔ کمیٹی نے ایل ای ڈی لائٹس کی درآمد پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز مسترد کر دی۔کمیٹی اجلاس میں اسلام جیولر ایسوسی ایشن کے چیئرمین سلمان حنیف نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سونے کے زیورات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔سونے کی انڈسٹری کے ساتھ چھوٹے کاریگر متاثر ہوں گے۔
ٹیکس عائد ہونے کے بعد لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہوں گے۔گزشتہ سال 3 فیصد بنانے پر، 0.5 فیصد قیمتی پتھروں پر اور سونے پر 1.5 فیصد ٹیکس لگانے کا اتفاق ہوا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے اور بہتر ہے کہ پہلے والے فارمولے پر عمل کیا جائے۔ اجلاس میں قائد ایوان سینیٹ
ڈاکٹر شہزاد وسیم، سینیٹرز محسن عزیز، فیصل سلیم رحمان، کامل علی آغا، پرنس احمد عمر احمد زئی، سید فیصل علی سبزواری، سلیم مانڈوی والا، شیری رحمن، سعدیہ عباسی، دلاور خان کے علاوہ وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین، ممبر کسٹم پالیسی، چیئرمین ایف بی آر اور دیگر متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی۔