پیر‬‮ ، 07 اپریل‬‮ 2025 

صف اول کے صحافی شریفوں اور زرداریوں کے 35 سال اور کپتان کے 18 دنوں کا موازنہ کرتے ہوئے عمران خان کو کیا کہنے پر مجبور ہو گئے؟

datetime 6  ستمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (نیوز ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگار محمد بلال غوری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہم وہ اہل قلم نہیں جن سے متعلق شورش کاشمیری نے طاقت کے پُجاری اور لفظوں کے مداری کی پھبتی کسی تھی۔تکلف برطرف،ہم نہ کسی کے حلیفِ سخن ساز ہیں نہ حریفِ دشنام طراز۔پانے کے خمار اور کھونے کے آزار میں مبتلا بہت سے قصیدہ گو حضرات کو جانے والوں کے عیب چنتے اور آنے والوں کے دربار میں سر دھنتے دیکھا ہے مگر کبھی جانے والوں پر الزام تراشی اور آنے والوں پر

گل پاشی کرکے حالات کے سانچوں میں ڈھلنے کی کوشش نہیں کی۔مرثیہ نگاری اور قصیدہ گوئی کا فن انہیں مبارک جن کا رزق کاسہ لیسی اور خوشامد و چاپلوسی سے وابستہ ہے۔بخدا،ہمیشہ وہی تحریر کیا جو محسوس کیا۔جہاں غلطی کا گمان ہوا،بلا حیل و حجت رجوع کیا مگر قلم کو کبھی مصلحت پسندی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز نہیں ہونے دیا۔گزشتہ حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی مگر جب بات سویلین بالادستی تک آئی تو تمام تر اختلافات کے باوجود ریشہ دوانیاں بے نقاب کرنے کی حتی المقدور کوشش کی تحریک انصاف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو انصافیوں کو نئے پاکستان کی مبارکباد ضرور دی لیکن اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑا رہا اور اب بھی قائم و دائم ہوں مگر اختلاف دلیل کی بنیاد پر ہونا چاہئے ناں کہ تعصب،بغض اور عناد کے زیر اثر۔یہی وجہ ہے کہ چند قابل تحسین اقدامات کی بنیاد پر حکومت سازی کے محض چند ہفتوں بعد ہی ’’شکریہ عمران خان‘‘ کہنے پر مجبور ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ یہ مواقع آئندہ بھی فراہم ہوتے رہیں گے۔سب سے پہلے تو اقلیتوں سے متعلق جراتمندانہ موقف اختیار کرنے پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کو سلام پیش کرتا ہوں۔وزیر اعظم عمران خان نے عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا ممبر بنایا تو ملک بھر میں بھونچال آگیا اور ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر اعتراضات ہونے لگے۔مذہبی عقائد کے بجائے

اگر عاطف میاں کی صلاحیت و قابلیت یا علمی استعداد پر سوالات اٹھائے جاتے تو بات ہو سکتی تھی مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کافروں کی ایجادات و مصنوعات پر انحصار کرنے والے مسلم معاشرے میں ایک مالیاتی مشیر کی خدمات مستعار لینے پر اس لئیہنگامہ برپا ہے کہ اس کے عقائد ہم سے متصادم ہیں؟آپ نے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرکے انہیں غیر مسلم قرار دیدیا تو کیا اب انہیں اقلیت کے طور پر پاکستان میں جینے کا بھی کوئی حق نہیں؟اس دلیل کے جواب میں یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ

ان کا معاملہ ہندوؤں،عیساؤں،سکھوں اور دیگر کافروں سے مختلف ہے۔یہ پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو نہیں مانتے جس کی رو سے انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا،یہ ریاست کے باغی ہیں لہٰذا کسی رعایت کے مستحق نہیں جان کی امان پاؤں تو عرض کروں،کیا پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتی ہے؟کیا مسلم لیگ (ن) حالیہ عدالتی فیصلوں کو درست مانتی ہے؟کتنے ہی لوگ قیام پاکستان کے کل بھی مخالف تھے اور آج بھی تقسیم ہند کو غلطی قرار دیتے ہیں۔

ایسے نابغوں کی کوئی کمی نہیں جو جمہوریت کو کفر سمجھتے ہیں۔ایسے گروہ بھی موجود ہیں جو کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔بعض حلقے آئین کی بعض شقوں کو ماننے سے انکاری ہیں تو کیا ان سب کو ایٹم بم چلا کر نیست و نابود کر دیا جائے یا پھر ان سب کے پاکستانی پاسپورٹ چھین لئے جائیں؟حقیقت یہ ہے کہ کسی فیصلے یا قانون سے اختلاف کرنا،اس پر تنقید کرنا یا اسے منصفانہ تسلیم نہ کرنا تب تک قابل گرفت فعل نہیں جب تک عملاً ہتھیار اٹھا کر

ریاست کے خلاف بغاوت نہ کی جائے۔وہ نہیں مانتے تو یہ ان کا استحقاق ہے مگر ریاست اور حکومت اپنے بنائے ہوئے قانون سے منحرف نہیں ہوئی اور اس پر من و عن عملدرآمد ہو رہا ہے تو پھر ان غیر مسلموں سے امتیازی سلوک کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟بدقسمتی سے ماضی میں خود تحریک انصاف نے ختم نبوت کے ایشو پر سیاست چمکانے اور نفرتوں کی آگ سلگانے کی کوشش کی۔ اس پروپیگنڈے کے باعث عوامی نمائندوں کی مسلمانیت خطرے میں پڑ گئی اور وفاقی وزرا کو

اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے۔بقول راحت اندوری،ہم تو تب بھی یہ کہتے رہے کہ ’’لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں‘‘۔اگرچہ بعض رہنماؤں نے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا ہے مگر یہ بھی بڑے ظرف کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے بحیثیت جماعت اس شرانگیزی سے خود کو دور رکھا ہے بلکہ احسن قبال جو خود ان الزامات کی زد میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے،انہوں نے حساب پورا کرنے کے بجائے واضح طور پر کہا کہ اسلام میرٹ کے اصول کو سربلند رکھتا ہے۔

میرٹ کو مذہب سے خلط ملط نہ کیا جائے۔اہلیت و قابلیت ہی عصر حاضر کی قابل قدر اجناس ہیں۔عمران خان اور ان کی کابینہ نے ایک او ر مستحسن فیصلہ یہ کیا ہے کہ سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج پر پابندی عائد کر دی ہے۔چند روز قبل سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کروانے والوں کا ریکارڈ طلب کیا گیا تو وزارت صحت نے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی معلومات فراہم کرنے سے تو معذوری ظاہر کی البتہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا ڈیٹا فراہم کر دیا گیا۔

جن افراد نے سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کی سہولت حاصل کی ان میں محض تین ارکان پارلیمنٹ ہیں جبکہ باقی سب حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ہیں۔مثال کے طور پر سابق آئی جی وجاہت لطیف کے علاج پر 2655496روپے خرچ ہوئے۔ڈپٹی سیکریٹری لیاقت علی شاہ نقوی کے علاج پر 1500ڈالر خرچ آیا،وفاقی سیکریٹری عبدالمالک غوری کے علاج پر 1623ڈالر خرچ ہوئے،سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے ایک اسٹیل ویلڈر امجد بٹ نے بیرون ملک علاج کے لئے 12لاکھ روپے

کلیم کئے نیشنل کوآرڈینیٹر نیکٹا،احسان غنی کے بیرون ملک علاج پر 1500ڈالر خرچ ہوئے۔منسٹری آف نیچرل ریسورسز کے افسر عاصم قادرحئی کے علاج پر 1500ڈالر خرچ ہوئے جبکہ ایوان صدر کے سابق ڈائریکٹر صغیر احمد کی اہلیہ کے بیرون ملک علاج پر 5لاکھ روپے خرچ ہوئے۔جس ملک میں سالانہ لاکھوں نوزائیدہ بچے خوراک کی کمی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہوں،وہاں سرکاری خرچ پربیرون ملک علاج ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔میں نے گزشتہ ہفتے لکھے گئے

کالم میں افسر شاہی کے زیر استعمال بیش قیمت وسیع و عریض رہائشگاہوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے تجویز دی تھی کہ چائے پانی میں کنجوسی کرنے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ کفایت شعاری مہم کو کامیاب بنانا ہے تو بیوروکریسی کے تصرف میں موجود ان 1100بڑے گھروں کو فروخت کر دیں جن سے کم از کم 150ارب روپے کی آمدنی ہو سکتی ہے اور اس رقم سے پچاس لاکھ چھوٹے گھروں کی تعمیر کا وعدہ پورا کیا جا سکتا ہے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے جاری کئے گئے

ایک مراسلے کے ذریعے پنجاب کے تمام کمشنرز،ڈپٹی کمشنرز،ڈی سی اوز،سیکریٹریز،پولیس حکام ااور دیگر اعلیٰ افسروں کی سرکاری رہائشگاہوں کی تفصیل طلب کی گئی ہے اور اس کے لئے ایک پرفارما بھی جاری کیا گیا ہے۔خدا کرے یہ کارروائی محض نوٹس لینے اور تفصیل معلوم کرنے تک محدود نہ رہے بلکہ اس پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد بھی ہو۔افسر شاہی گھروں کے علاوہ سرکاری گاڑیوں کے ذریعے کیسے لوٹ مار کرتی ہے اور اس کا تدارک کرکے کیسے سالانہ کھربوں روپے بچائے جا سکتے ہیں،اس حوالے سے انشاء اللہ آئندہ کالم میں بات ہو گی تب تک کے لئے شکریہ عمران خان۔



کالم



زلزلے کیوں آتے ہیں


جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…

ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…