پیر‬‮ ، 25 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

شامی ثقافت بچانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی

datetime 18  ‬‮نومبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(ویب ڈیسک)حالیہ برسوں میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر نے شام اور عراق کے انمول ثقافتی ورثے کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔وہاں سے چوری شدہ نوادرات امریکہ اور یورپ میں سامنے آ رہے ہیں جہاں انھیں بھاری قیمت کے عوض فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کے مطابق

اس غیرقانونی تجارت کی مالیت کروڑوں ڈالر ہے۔ تاہم اب ایک تخلیقی طریقہ سامنے آ رہا ہے جس کے تحت ماہرینِ آثارِ قدیمہ ان نوادرات کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شامی حکومت کے دائرۂ اختیار سے باہر علاقوں میں ماہرین بعض نوادارت پر ایک بےرنگ مائع لگا رہے ہیں جس سے ان کا سراغ لگایا جا سکے گا۔ یہ محلول نظر نہیں آتا لیکن اسے بالائے بنفشی شعاعوں کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ایک برطانوی کمپنی سمارٹ واٹر نے تیار کی ہے اور اسے ریڈنگ یونیورسٹی اور امریکہ کی شانی سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے وضع کیا ہے۔ رومی پچی کاری، بازنطینی ظروف اور قدیم مجسموں پر اس محلول کا چھڑکاؤ کیا جا رہا ہے تاکہ دہشت گرد اور مجرم گروہ انھیں بیچ نہ سکیں۔ امید ہے کہ اس سے نوادارت فروخت کرنے والوں اور سمگلروں دونوں کی حوصلہ شکنی ہو گی کیوں کہ اس طرح ہر نمونے پر ایک منفرد نشان لگا ہوتا ہے جس کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔اس منصوبے کے نگران مشہور شامی ماہرِ آثارِ قدیمہ پروفیسر عمرو الاعظم ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سمارٹ واٹر کے محلول کا ظروف اور دوسرے قدیم نوادرات پر کوئی مضر اثر نہیں پڑتا۔ یہ محلول جنوری میں ترکی پہنچایا گیا تھا جس کے بعد اسے گذشتہ ماہ شام منتقل کیا گیا۔ انھوں نے کہا: ‘شامی ورثہ چاہے جہاں بھی ہو، خطرے میں ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔’اب بہت دیر ہو چکی؟شام میں جاری

چھ سالہ خانہ جنگی کے دوران شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ پہلے ہی سمگلروں اور جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ مل کر بہت سا ورثہ لوٹ چکی ہے۔ یونیسکو کے مطابق اسلحے اور انسانوں کی سمگلنگ کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ سے نوادرات کی سمگلنگ کا شمار اس وقت دنیا میں جاری سب سے بڑے غیر قانونی دھندوں میں ہوتا ہے۔اس وقت ایک بڑی لیکن نامعلوم تعداد میں نوادرات امریکہ اور یورپ کے نیلام گھروں میں پہنچ چکے ہیں، جہاں سے انھیں

نجی شائقین کو فروخت کیا جاتا ہے۔عراق میں بھی یہی صورتِ حال ہے، تاہم فی الحال یہ منصوبہ وہاں شروع نہیں کیا گیا۔دولتِ اسلامیہ نے نینوا کے آثار سے ہر قیمتی چیز اٹھا لی تھی اور ہر اس چیز کو توڑ دیا تھا جسے وہ ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔تاہم پروفیسر اعظم کو اب بھی امید ہے کہ اس منصوبے سے سمگلروں اور آرٹ ڈیلروں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور مجرموں تک پہنچا جا سکے گا۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…