اسلام آباد (نیوز ڈیسک) تھری ڈی پرنٹرز کی آمد سے گنز سے لے کے بطخ تک ہر طرح کی چیزیں پرنٹ کی جارہی ہیں تاہم مارچ میں ہونے والی ایک فزکس کانفرنس میں تھری ڈی انسان پرنٹ کرنے کا ایک تجربہ کیا گیا۔ سائنس رپورٹر جوناتھن ویب نے اپنا تجربہ قارئین کے ساتھ شیئر کیا ہے۔جوناتھن کہتے ہیں کہ وہ کانفرنس ہال کے ایک کونے میں ایک چھوٹے سے کاو¿نٹر کے پیچھے نصب پلیٹ فارم پر چند منٹوں کیلئے کھڑے رہے، اس دوران کیمرہ سر سے پاو¿ں تک انہیں سکین کرتا رہا۔ اس کے بعد ان سے ایک فارم پر کروایا گیا۔ کچھ روز بعد ان کے گھر کی دستک ہوئی اور معلوم ہوا کہ ان کا دو انچ کا ایک تھری ڈی پرنٹ آو¿ٹ بذریعہ کوریئر کمپنی نے بھجوایا ہے۔ جوناتھن اس تھری ڈی پرنٹ کا اعزاز حاصل کرنے والے اہم افراد بشمول اوباما اور رچرڈ سوئم کے، فہرست میں شامل ہوچکے ہیں تاہم انہیں دراز میں موجود اس دو انچ کے پلاسٹک کے انسان کا مقصد سمجھ نہیں آرہا ہے۔ تھری ڈی انسان بنانے والی کمپنی کا نام ٹوئنڈم ہے اور اس کا ماننا ہے کہ اب وہ خاندانوں کو توجہ کا مرکز بنائے گی۔ ا نہیں امید ہے کہ والدین اپنے بچوں، بہن بھائی اپنی اور اپنے پالتو جانوروں کے تھری ڈی پرنٹس لینا چاہیں گے۔کمپنی سکیننگ کی غرض سے مذکورہ شے کو تھری ڈی آبجیکٹ کے طور پر فوری سکین کیلئے ایک جدید ٹیکنالوجی لاچکی ہے اور اس کے ذریعے پالتو جانور یا بچے جنہیں مخصوص پلیٹ فارم پر ٹکانا مشکل ہے، ان کے تھری ڈی پرنٹس بھی نکالے جاسکیں گے۔ فی الوقت ٹوئنڈم کے صارفین میں پہلا نمبر پولیس والوں کا ہے۔ وہ یونیفارم مین اپنے بچوں کیلئے اپنے تھری ڈی پرنٹس نکلواتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے بزرگوں کی موجودگی کے احساس کو ہمیشگی عطا کرنے کیلئے ان کے پرنٹس بھی نکلواتے ہیں۔ کمپنی کے صارفین کی تاحال عمر رسیدہ ترین خاتون91برس کی ہیں۔ اس تھری ڈی پرنٹ کے بارے میں خود کمپنی کا بھی کہنا ہے کہ ” مونا لیزا کی توقع نہیں کرنی چاہئے، درحقیقت یہ ابھی زیر تخلیق ٹیکنالوجی ہے، اس لئے ابھی اس کے بہت سے پہلوو¿ں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے“۔کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی اگرچہ مقبول ہورہی ہے لیکن اب بھی پچیس سے تیس فیصد افراد ایسے ہیں جن کی سمجھ سے باہر ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا مقصد کیا ہے اور جس دن اس تیس فیصد آبادی کو بھی اس ٹیکنالوجی میں کچھ فائدہ محسوس ہوا گیا، اس دن سے یہ اشتہار سائن بورڈز پر عام دکھائی دینے لگے گا کہ ”تھری ڈی انسان پرنٹ کروانے کیلئے یہاں تشریف لائیں“۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں