اسلام آباد (نیوز ڈیسک )نوجوان نسل میں سیکسٹنگ، دوسروں کو ہراساں کرنا،ذہنی صحت میں پسماندگی اور سائبر ایڈکشن جیسے مسائل کیلئے آج کی دنیا میں جس قدر زیر بحث کی جارہی ہے، ماضی میں کبھی نہیں کی گئی۔ نوجوانوں کی اکثریت سے اگریہ کہا جائے کہ وہ اپنا سمارٹ فون کچھ دنوں کیلئے رکھ دیں تو وہ یقینی طور پر پوچھنے والے کی ذہنی حالت پر شک کریں گے۔ یہ ایک عام خیال ہے تاہم اس کا سچائی سے کس حد تک تعلق ہے، اسے جاننے کیلئے کیپٹل سٹی اکیڈمی لندن نے ایک سروے کیا۔ اس سروے اور اس کے خیال کے بارے میں بیہیویئر ٹیچر مچل سٹینی لینڈ کہتی ہیں کہ میری زندگی میں آنے والے85فیصد مسائل میں سوشل میڈیا کسی نہ کسی طرح شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح نوجوان نسل کا معاملہ بھی ہے جو اپنے ہی خول مین مقید ہیں اور خود اعتمادی کھو چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی ابلاغ کو بھی متاثر کرتی ہے، حتیٰ کہ طلبا کیلئے بعض اوقات سادہ سے کام کرنا بھی مشکل ہوجاتاہے، اس کیلئے بس ضروری ہے کہ ان کی آنکھوں میں دیکھ کے ضرورت سے زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس کیلئے جو پروجیکٹ ترتیب دیا گیا تھا، اس کا نام ”ڈس کنیکٹ“ رکھا گیا تھا۔ اس کے تحت طلبا سے کہا گیا کہ وہ اپنے سمارٹ فونز بند کردیں جبکہ ان میں سے نصف طلبا کو ایک سادہ بنیادی خوبیوں والا موبائل دیا گیا جس سے کال اور پیغام بھیجے جاسکیں۔
ابتدا میں طلبا کا رویہ ایسا تھا کہ گویا انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جوں جوں وہ اس پر غور کرتے گئے انہیں سمارٹ فونز سے علیحدگی کے دلچسپ پہلو دکھائی دینے لگے۔ اس دوران اس امر کا جائزہ بھی لیا گیا کہ اس تجربے میں داخل ہونے سے پہلے ایک ہفتہ ان طلبا نے کس قدر وقت سمارٹ فونز پر پیغام رسانی اور گیمز مین خرچ کیا۔ سامنے آنے والے نتائج بے حد حیران کن تھے۔ لڑکیاں صبح آنکھ کھلنے سے لے رات بستر پر جانے تک اپنے فونز کے ہمراہ پائی گئیں، حتیٰ کہ سوتے میں بھی وہ ان کے پہلو میں رہا جبکہ لڑکے سوشل میڈیا کم استعمال کرتے کم پائے گئے تاہم انہوں نے چھ گھنٹے گیمز پر خرچ کئے۔ جب طلبا سے یہ اعداد و شمار شیئر کئے گئے تو وہ بے حد پریشان ہوئے۔ اکثریت کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ سمارٹ فونز پر کس قدر وقت خرچ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس دوران کوئی اور کام کرتے یا تفریح کرتے تو زیادہ لطف اٹھا سکتے تھے۔اس تحقیق میں طلبا نے محسوس کیا کہ سمارٹ فونز سے پیچھا چھڑانا اتنا مشکل نہیں جتنا لگتا ہے اور یہ ان کی عادت نہیں بلکہ وہ اس پر مجبور ہیں۔ اس ہفتے کے دوران تمام طلبا نے دلچسپ سرگرمیوں میں حصہ بھی لیا، مثلاً دوستوں کے ساتھ گھومنا، کتاب پڑھنا، سکول کا کام بروقت ختم کرلینا وغیرہ۔
اس تحقیق پر کام کرنے والے ماہرین اب اسی سلسلے کو بڑے پیمانے پر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کیلئے وہ طلبا کی رجسٹریشن میں مصروف ہیں۔ان کا خیال ہے کہ وہ اس طرح زیادہ سے زیادہ طلبا تک یہ پیغام پہنچا سکیں گے کہ سمارٹ فونز سے پیچھا چھڑانا اور زندگی میں واپس لوٹنا اتنا مشکل نہیں، جتنا لگتا ہے۔
سمارٹ فونز سے پیچھا چھڑانا اتنا مشکل نہیں جتنا لگتا ہے
24
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں