اسلام آباد (نیوز ڈیسک )بالی ووڈ میں ہم شکل افراد کے مل جانے کی کہانیاں عام ہیں۔ یہ موضوع فلموں میں بے تحاشہ زیر بحث آتا ہے تاہم عملی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ خال خال ہی سننے کو ملتا ہے جیسا کہ حال ہی میں ایک خاتون نے فیس بک پر اپنی ہم شکل خاتون کو پایا۔ امریکی وزارت مردم شماری کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیاکی آبادی 7 ارب سے تجاوز کرچکی ہے اور عین ممکن ہے کہ ان 7ارب میں سے کوئی ایک چہرہ ایسا بھی ہو جو یوں تو آپ کیلئے اجنبی ہو لیکن ناک کی ساخت، بالوں کی موٹائی، ابرو کا خم ایک دوسرے سے بے حد مماثلت رکھتا ہو۔ ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والے ان افراد کو ”ڈوپل گینگر“ کہا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسے افراد جڑواں افراد کی طرح ایک دوسرے سے ملتے ہیں تاہم چہرے کی ساخت کو بیان کرنے والے اہم نقوش کے ایک جیسے ہونے کی وجہ سے یہ ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی ایجاد سے پہلے ہم شکل افراد کو ڈھونڈنا تقریباً ناممکن تھا، اس کی بس ایک ہی صورت ہوسکتی تھی کہ سڑکوں پر نکل جائیں اور لوگوں کی شکلوں کو گھور گھور کے دیکھتے رہیں، تب بھی عین ممکن ہے کہ سالوں کی خاک چھانے کے باوجود بھی ہم شکل فرد نہ مل سکے۔ اب انٹرنیٹ کی بدولت دنیا کی آبادی کی اربوں کی تعداد میں تصاویر انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور یہ مختلف زاویوں سے لی گئی ہیں، اس لئے مماثلت تلاش کرنے کا کام اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ اسی سہولت کا فائدہ اٹھایا دو ٹی وی پروڈیوسرز اور ایک انجینیئرنگ کی طالبہ نے۔ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے تین افراد کے اس گروہ نے 28دن کو اپنی حد مقرر کی اور یہ جاننے کا فیصلہ کیا کہ کیا اس دوران وہ اپنے ہم شکل ڈھونڈ پائیں گے یا نہیں۔
”ٹوئن سٹرینجرز“ نامی اس پروجیکٹ کے تحت اس گروہ نے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام یو ٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا پیجز پر اپنے اکاو¿نٹ تیار کئے اور ان سب پر یوزرز سے بس یہی درخواست کی کہ کیا انہوں نے ان تین میں سے کسی ایک سے ملتی جلتی شکل کا حامل فرد دیکھا ہے؟اس پروجیکٹ میں شامل گیئرنی کہتی ہیں کہ پہلے دن وہ صبح دس بجے سے رات دو بجے تک انٹرنیٹ پر موجود رہیں اور اس دوران صرف ایک ہی کام کیا کہ وہ اپنے دوستوں سے یہ درخواست کرتی رہیں کہ وہ ان کے پیغام کو شیئر کریں۔ صرف دو ہفتے میں ان کی مہم اس قدر مشہور ہوئی کہ صرف ایک دن میں موصول ہونے والے پیغامات کی تعداد6ہزار تک جا پہنچی۔ ان میں ایسے افراد کی تصاویر بھی شامل تھیں، جنہوں نے مماثلت نکال لی تھی جبکہ کچھ نے اس امید پر اپنی تصویر بھیج دی کہ شائد یہ کسی طریقے سے ان کے ہمشکل افراد ڈھونڈنے میں ان کی مدد کرسکیں۔گیئرنی کو بھی اسی عام مفروضے پر یقین ہے کہ دنیا میں ایک شکل کے جیسے سات لوگ ہوتے ہیں اور اس پر ان کا یقین اس وقت کچھ زیادہ مستحکم بھی ہوگیا جب ان کی سہیلی نے ان کی ملاقات29سالہ کیرن سے کروائی جن کی آنکھوں کی رنگت، ناک کی ساخت اور کسی حد تک چہرے کے دیگر نقوش بھی گیئرنی سے ملتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ملتی جلتی شکل کی حامل خاتون سے ملنے کیلئے تو گیئرنی ذہنی طور پر تیار تھیں تاہم انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کی ہم شکل کیرن عادات میں بھی انہی کے جیسی ہوں گی۔ دونوں اپنی پوری پیٹھ پر خارش کرسکتی ہیں، دونوں کو ڈرائنگ سے دلچسپی ہے اور دونوں عام طور پر پریاں بناتی رہتی ہیں۔ڈوپلگینگر ہونے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چہرے کے نقوش انسانی ماحول اور جینز کی بدولت ہوتے ہیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی فارینزک مالیکیولر بائیولوجسٹ ڈینیئل کہتے ہیں کہ اگر بالکل ہم شکل جڑواں بچوں میں سے ایک کو خط استوا اور دوسرے کو گرین لینڈ میں پروان چڑھایا جائے تو بھی دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے
کیونکہ ان کی غذا، جسمانی سرگرمیاں، سورج کا سامنا کرنے کی مدت اور درجہ حرارت تک سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔ کیرن اور گیئرنی کے معاملے میں دونوں کے ایک جیسے دکھائی دینے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ دونوں ایک جیسے ماحول میں پروان چڑھیں تھیں۔ ڈینیئل کی رائے میں ایک جیسے نقوش والے افراد کو ڈھونڈنا کوئی اہم بات نہیں بلکہ ہم نسل افراد میں ایسے بہت سے افراد ڈھونڈے جاسکتے ہیں جو کہ ہر لحاظ سے ایک جیسے دکھائی دیں تاہم یہ مماثلتیں اس لئے ہوتی ہیں کہ ان کے ڈی این اے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ماہرین تاحال جینیٹکس میں ان پہلوو¿ں کی نشاندہی نہیں کرسکے ہیں جو کہ چہرے کی ساخت پراثر ڈالتے ہیں۔ جس دن ماہرین یہ طے کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ جینز کا کون سا حصہ ناک کی ساخت اور کون سا حصہ کانوں کی ساخت کا ذمہ دار ہے، اس دن سے شائد والدین کیلئے یہ طے کرنا بھی آسان ہوجائے کہ وہ ہوبہو ایک جیسے جڑواں بچوں کے والدین بنیں۔ ادھر آئرلینڈ میں جاری ٹوئن سٹرینجر مہم 27اپریل تک جاری ہے اور اب اس میں گیئرنی کے دیگر دو ساتھی اپنا ہم شکل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہم شکل فیس بک پر کیسے تلاش کیا جائے ؟
23
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں