اسلام آباد( نیوز ڈیسک)سائنسدان بحرِ ہند کی تہہ سے نکالے جانے والے ’فوسلز‘ کی مدد سے کروڑوں برس پہلے ہونے والی مون سون کی بارشوں کے ارتقا کا کھوج لگانے کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ نمونے سمندر کی تہہ کو کھود کر نکالے گئے ہیں اور ان کی مدد سے ماضی میں ہونے والی بارشوں اور اس وقت کے درجہ حرارت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔اس تحقیق کا مقصد ماضی میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔یونیورسٹی آف ایگزیٹر کی ڈاکٹر کیٹ لٹلر کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ برصغیر میں مون سون بارشوں کے عمل میں کیسے تبدیلی آئی اور مستقبل میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔برصغیر میں مون سون بارشیں مئی اور جون کے مہینوں میں سخت گرمی کی وجہ سے شمالی بحرِ ہند کے پانی کے گرم ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔یہ پانی بخارات بن کر فضا میں بلند ہو جاتا ہے اور پھر جولائی سے ستمبر تک برستا ہے۔ یہ بارشیں اس خطے میں ہونے والی سالانہ بارش کا 75 فیصد ہوتی ہیں۔جنوبی ایشیا کے ممالک ہر برس مون سون کی بارشوں کی زد پر آتے ہیںتحقیق میں بھارت میں مون سون کی بارشوں میں سالانہ پانچ سے دس فیصد اضافے کی پیشنگوئی کی گئی ہے جس کا اثر ملکی معیشت اور زراعت پر پڑ سکتا ہے۔یہ تحقیق یو کے انٹرنیشنل اوشن ڈسکوری پروگرام کے تحت کی گئی اور ڈاکٹر کیٹ اس مہم کا حصہ تھیں جو ایک ڈرلنگ کرنے والے بحری جہاز پر بحرِ ہند، خلیجِ بنگال اور بحیرئہ انڈیمان میں گئی۔اس مہم کے دوران عالمی سائنسدانوں نے کئی مقامات پر سمندر کی گہرائیوں سے نمونے جمع کیے۔ ان میں سے کئی نمونے ایسے مقامات سے لیے گئے جہاں اس سے قبل کبھی کھدائی نہیں کی گئی تھی۔آبی حیات کے ان فوسلز کی مدد سے وہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو ان کی زندگی کے وقت تھا۔ڈاکٹر لٹلر کا کہنا ہے کہ ’ہم مون سون کے ارتقا کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جب اس میں 80 لاکھ سال قبل تیزی آئی۔‘
برسوں پہلے برسنے والی مون سون بارشوں کی کھوج
2
مارچ 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں