اسلام آباد (نیوز ڈیسک)اربوں روپے مالیت کی جائیداد کے تنازع پر اپنی سابقہ امریکی شہریت یافتہ بیوی کو قتل کرنے والے شخص کو عدالت نے سزائے موت کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں واضح کیا کہ مجرم کو پھانسی کے پھندے پر اس وقت تک لٹکایا جائے گا جب تک اُس کی موت واقع نہ ہو جائے۔
تفصیلات کے مطابق، امریکی شہری وجیہہ سواتی کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں ان کے سابق شوہر رضوان حبیب کو مجرم قرار دیتے ہوئے عدالت نے اسے سزائے موت کے ساتھ پانچ لاکھ روپے ہرجانے کی سزا بھی سنائی ہے۔ اس کے علاوہ اغوا کے جرم میں 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ، جب کہ شواہد کو مٹانے پر مزید 7 سال قید اور ایک لاکھ روپے کا اضافی جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں شریک ملزم سلطان کو بھی سات سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔
فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر امریکی سفارت خانے کے تین نمائندے اور ایف بی آئی کا ایک افسر بھی عدالت میں موجود تھے، جنہوں نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ فیصلے کے بعد رضوان حبیب کو سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ مقتولہ وجیہہ سواتی اور ملزم رضوان کے درمیان اربوں روپے مالیت کی جائیداد کا تنازع تھا۔ تمام جائیداد وجیہہ کے نام پر تھی، جس پر ملزم نے زبردستی قبضہ کر رکھا تھا۔ اس نے سابقہ بیوی کو مصالحت کی آڑ میں پاکستان آنے کی دعوت دی، جس پر وہ 16 اکتوبر 2021 کو پاکستان پہنچی تھیں۔
پاکستان پہنچتے ہی رضوان حبیب نے انہیں قتل کر دیا، لاش مسخ کی اور راولپنڈی سے خیبر پختونخوا لے جا کر دفنا دی۔ قتل کے بعد وہ خود ہی وجیہہ کی گمشدگی کا ڈراما رچاتا رہا، تاہم تفتیش کے دوران گرفتار ہونے پر اس نے سچ اُگل دیا اور پولیس کو لاش کی نشاندہی کر دی۔
وجیہہ کے بیٹے عبداللہ نے امریکہ سے پاکستان میں تھانہ مورگاہ میں آن لائن مقدمہ درج کروایا تھا۔ کیس کی پیروی ہر سماعت پر امریکی سفارت خانے اور ایف بی آئی کے اہلکار کرتے رہے۔
یاد رہے کہ اس مقدمے میں پہلے بھی رضوان حبیب کو سزائے موت سنائی گئی تھی، تاہم ہائی کورٹ نے کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے واپس بھجوا دیا تھا۔ اب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چوہدری ماجد حسین گادی نے ایک مرتبہ پھر مجرم کو سزائے موت سنائی ہے۔
امریکی فرانزک لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق، وجیہہ کی موت تشدد کے باعث ہوئی تھی، جس کی تصدیق پاکستان میں بھی دوبارہ پوسٹ مارٹم کے ذریعے کی گئی۔ کیس میں مقتولہ کی نمائندگی سرکاری پراسیکیوٹر عفت سلطانہ نے کی۔