ہفتہ‬‮ ، 22 فروری‬‮ 2025 

’قاتل نامعلوم، مقتول نامعلوم‘: شیخوپورہ میں ملنے والی سر کٹی لاش کا معمہ کیسے حل ہوا؟

datetime 22  فروری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) بی بی سی رپورٹ کے مطابق: ایک غیرمعمولی ایف آئی آر، جس میں نہ مقتول کا نام معلوم تھا اور نہ ہی قاتلوں کا کوئی سراغ۔ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے تھانہ فیکٹری ایریا میں 12 دسمبر 2024 کو درج ہونے والی اس ایف آئی آر کے مدعی رحمت علی اور اسے درج کرنے والے اے ایس آئی محمد افضل بھی نہیں جانتے تھے کہ جس قتل کی رپورٹ درج کی جا رہی ہے، وہ شخص دراصل کون تھا۔

یہ واقعہ سردیوں کی ایک صبح تقریباً سات بجے پیش آیا جب رحمت علی، اپنے ساتھیوں اسماعیل اور غلام عباس کے ہمراہ بازار میں موجود تھے اور اچانک انہیں ایک لاش نظر آئی۔ اس لاش کا منظر لرزہ خیز تھا کیونکہ مقتول کی گردن موجود نہیں تھی۔ جسم پر نیلگوں نشان بھی نمایاں تھے۔ گاؤں کے دیگر افراد بھی موقع پر پہنچے اور شناخت کی کوشش کی، تاہم کوئی کامیابی نہ ملی۔ حتیٰ کہ مسجد میں اعلان کروانے کے باوجود مقتول کے بارے میں کوئی اطلاع نہ مل سکی۔

بالآخر پولیس کو اطلاع دی گئی، جس پر تھانہ فیکٹری ایریا کے اے ایس آئی اعجاز حسین اپنی ٹیم کے ساتھ موقع پر پہنچے۔ لاش کی تصاویر لی گئیں، مقامی افراد سے پوچھ گچھ کی گئی اور پھر اسے پوسٹ مارٹم کے لیے شیخوپورہ کے سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ چونکہ مقتول کی شناخت نہیں ہو سکی تھی، لہٰذا رحمت علی کی مدعیت میں قتل کی رپورٹ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا۔

پراسرار قتل کی پہلی کڑی کیسے ملی؟
یہ کیس 11 دن تک معمہ بنا رہا، کیونکہ نہ تو کوئی مقتول کو جاننے کا دعویدار سامنے آیا اور نہ ہی کسی نے اپنے کسی عزیز کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی۔ مقامی افراد نے مقتول کی لاش کو امانتاً دفنا دیا، جبکہ پولیس کے پاس سراغ نہ ہونے کے باعث تفتیش آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔

لیکن 23 دسمبر کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے کیس کی تفتیش کا رخ موڑ دیا۔ اسی گاؤں میں ایک نالے سے ایک انسانی سر ملا، جسے جانور نوچ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر گاؤں میں ہلچل مچ گئی، اور اطلاع ملنے پر تھانہ فیکٹری ایریا کے ایس ایچ او سجاد اکبر موقع پر پہنچے۔

انہوں نے انسانی سر کو تحویل میں لے کر مقامی افراد کو شناخت کے لیے بلایا۔ حیران کن طور پر، کچھ دیر بعد مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ یہ سر ان کے گاؤں کے رہائشی ‘ماسٹر برکت’ کا ہے۔ اس شناخت کے بعد پولیس نے برکت علی کے گھر چھاپہ مارا، جہاں انہیں اطلاع ملی کہ برکت علی کے دو بھائی اور ایک بہن کچھ دیر قبل ہی وہاں سے جا چکے ہیں۔ تاہم، گھر میں موجود ایک خاتون سے ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد مزید معلومات سامنے آئیں، جو اس قتل کے معمے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔

برکت علی کون تھا اور اسے کیوں قتل کیا گیا؟
برکت علی پھول نگر کی ایک فیکٹری میں بطور کیشیئر ملازم تھا اور شام کو گاؤں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا، جس کے باعث وہ ’ماسٹر برکت‘ کے نام سے مشہور تھا۔ وہ چار بھائیوں اور چار بہنوں میں شامل تھا، اور اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ دیگر بھائیوں نے وراثت میں ملنے والی زرعی زمین فروخت کر دی تھی، جبکہ برکت علی ملازمت کے ساتھ ساتھ کاشت کاری بھی کرتا تھا۔ پولیس کے مطابق، وہ معاشی طور پر اپنے بہن بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ مستحکم تھا، جو ممکنہ طور پر اس کے قتل کی وجہ بنی۔

پولیس تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ برکت علی نے دو شادیاں کی تھیں، مگر دونوں طلاق پر ختم ہوئیں اور وہ بے اولاد تھا۔ اس حقیقت کو بنیاد بنا کر اس کے بہن بھائیوں نے جائیداد ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔

قاتل کون نکلا؟
پولیس نے برکت علی کے سگے بھائی کو اس قتل میں مرکزی ملزم کے طور پر گرفتار کر لیا۔ مزید تحقیقات کے بعد مقتول کے ایک اور بھائی اور بہن کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ تینوں ملزمان کو 18 فروری کو عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں وکیل صفائی رائے اشفاق کھرل نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے دو افراد بے گناہ ہیں اور انہیں غلط طور پر کیس میں ملوث کیا گیا ہے۔ تاہم عدالت نے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم دے دیا۔

قتل کیسے ہوا؟
ایس ایچ او سجاد اکبر کے مطابق، پولیس نے قتل میں استعمال ہونے والا کلہاڑا، آری اور رسی برآمد کر لی۔ فرانزک رپورٹ سے تصدیق ہوئی کہ مقتول کو پہلے کلہاڑے سے سر پر وار کر کے مارا گیا، پھر آری کی مدد سے گردن الگ کی گئی، اور بعد ازاں لاش کو رسی سے باندھ کر ٹھکانے لگایا گیا۔

مزید شواہد میں مقتول اور ملزمان کے موبائل فون کی جیو لوکیشن بھی شامل تھی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ ایک ہی مقام پر موجود تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ برکت علی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو ایک رات گھر کے غسل خانے میں رکھا گیا، پھر علی الصبح بازار میں پھینک دیا گیا، جبکہ سر سیم نالے میں ڈال دیا گیا، مگر پانی کی کمی کے باعث وہ جھاڑیوں میں پھنس گیا۔

کیس کا مستقبل؟
ڈی پی او بلال ظفر شیخ کے مطابق، اگر مدعی مقدمہ کیس واپس بھی لے لے، تو پولیس کے پاس قانونی طور پر خود فریق بننے کا اختیار موجود ہے۔ پولیس نے عدالت میں پیش کیے گئے عبوری چالان میں فرانزک شہادتیں، آلہ قتل پر ملنے والے فنگر پرنٹس، خون آلود کپڑے اور مقتول کے خون کے نمونے شامل کیے ہیں۔

اگر مقتول کا سر نہ ملتا تو کیا لاش کی شناخت ہو پاتی؟ اس سوال پر پولیس کا کہنا ہے کہ لاوارث لاشوں کی شناخت کے لیے پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، مگر اس عمل میں وقت لگتا ہے۔ مقتول کے انگوٹھوں کے پور کاٹ کر محفوظ کیے جاتے ہیں، تاکہ مستقبل میں کسی بھی ممکنہ شناختی عمل میں مدد مل سکے۔

یہ اندوہناک قتل محض جائیداد کے لالچ کا نتیجہ نکلا، اور برکت علی کی جان لے کر اس کے سگے بہن بھائیوں نے نہ صرف اپنے ہی خاندان کا خون کیا، بلکہ خود کو بھی قانونی شکنجے میں جکڑوا لیا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بخارا کا آدھا چاند


رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…

بے ایمان لوگ

جورا (Jura) سوئٹزر لینڈ کے 26 کینٹن میں چھوٹا سا کینٹن…

صرف 12 لوگ

عمران خان کے زمانے میں جنرل باجوہ اور وزیراعظم…

ابو پچاس روپے ہیں

’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…