اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق وفاقی سیکرٹری کنور محمد دلشاد کہتے ہیں کہ پاکستان نے صدارتی آرڈیننس جس کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آرڈیننس کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنے کا پابند کیا گیا ہے۔بادی النظر میں دونوں صدارتی آرڈیننس کے اجراء سے الیکشن
2023ء کے حوالے سے دور رس نتائج نکلیں گے مگر جب گہرائی میں مطالعہ کیا جائے تو شفافیت اور رازداری پر سوالیہ نشان اٹھیں گے۔روزنامہ جنگ میں حنیف خالد کی خبر کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ سسٹم آر ٹی ایس کی طرح ناکام ہو گیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہنگامی طور پر متبادل نظام نہیں ہو گا‘ اور قومی انتخابات غیرمعینہ مدت کیلئے موخر کرنا پڑینگےسمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے بیلٹ کا حق دیا گیا ہے جس سے رازداری کے اصول پامال ہو جائینگے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ کے طریقہ کار پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ بیلٹ کے طریقہ کار سے انٹرنیٹ ہیک (HACK)ہو جانے کے امکانات موجود ہیں اور اس پر دنیا بھر میں موجود ستر اسی لاکھ سمندر پار پاکستانیوں کو بیلٹ کے ذریعے ووٹ کا حق دینے سے حکومت پاکستان کو پچاس ارب روپے کا خرچہ برداشت کرنا پڑیگا اور اسکے نتائج بھی مشکوک ہونگے۔مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کے پاس نادرا کے مخصوص کارڈ نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ
انکے پاسپورٹ اُنکے کفیل کے پاس ہوتے ہیں۔کنور محمد دلشاد نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس پر حکومت پاکستان کا ساٹھ ارب روپے سے زائد کا خرچہ آئے گا کیونکہ ایک لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کیلئے چار لاکھ سے زائد الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنا ہونگی۔ایک دوسرے سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے
استعمال سے دھاندلی پر قابو پانا ناممکن ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ایسی چپ (CHIP)خفیہ طور پر لگا دی جاتی ہے جس کے ذریعے ووٹ کسی بھی دوسرے امیدوار کو منتقل کئے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہاپاکستان میں اگر جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کر دیا گیا تو ہارنے والی پارٹی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر سکتی ہے اور اس سسٹم پر عدم اعتماد کرنے سے ایک اور
انتخابی جنگ کا آغاز ہو جائیگا۔کنور محمد دلشاد نے کہا کہ 70فیصد ناخواندگی ملک میں ہے اور ناخواندہ ووٹر اپنے ووٹ کے استعمال کیلئے الیکشن کے عملے کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہو گا اور الیکشن کے عملے نے کسی پارٹی کیلئے بٹن دبا دیا تو اس کا ووٹ ووٹر کی مرضی کے بغیر اُسی جماعت کو چلا جائیگا۔ایسے حالات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ناکارہ ہو جائیگی۔ بااثر امیدوار
پولنگ اسٹیشنوں سے مشین کو اٹھا کر مطلوبہ جگہ پر اپنے حق میں ووٹ ڈالنے کے طریقے اختیار کرینگے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اس پر عمل کرانے کے اخراجات کا تخمینہ ایک کھرب روپے لگایا گیا ہے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کیلئے بھارت میں پچیس سال کا عرصہ لگا تھا‘ پاکستان میں اکتوبر 2023ء کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ناممکن ہے۔انہوں نے
بتایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ کے ذریعے بیلٹ کے طریقہ کار کے بارے میں اپنی تجاویز اور دستاویزات انہوں نے وزیراعظم‘ صدر‘ سپیکر قومی اسمبلی‘ چیئرمین سینٹ اور چیف آف آرمی سٹاف کو بھی بھجوائی ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذرائع نے بتایا کہ الیکٹرانک ووٹنگ کیلئے الیکشن کمیشن کو ایک لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنا ہونگی جن کی خریداری‘ ٹریننگ‘ تنصیب پر کم و بیش 60ارب روپے سے زائد اخراجات ہونگے